افغان طالبان کی موجودہ حکمت عملی ماضی سے کتنی مختلف ہے؟ —

Abdul Sayed
10 min readAug 11, 2021

--

عبدالسید، محقق، سوئیڈن

BBC News اردو

،تصویر کا ذریعہ VT Freeze Frame

افغان طالبان نے اکتوبر 1994 میں ایک مقامی مذہبی پیشوا ملا محمد عمر کی سربراہی میں افغانستان کے جنوبی صوبے قندھار میں جنم لیا تھا۔

سابق افغان سفیر ملا عبدالسلام ضعیف طالبان تحریک کے قیام پر اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ اس تحریک کی ابتدا قندھار اور اس کے اطراف میں دینی مدارس کے نوجوان طالب علموں سے ہوئی۔

ان کے مطابق ان دینی مدارس کے طلبا نے صوبے میں ‘جہادی کمانڈروں اور اُن کو تسلیم کرنے والے سابق کمیونزم (اشتراکیت) کے باقی ماندہ ملیشیا کے ہاتھوں پھیلی طوائف الملوکی اور شدید بدامنی سے عوام کو درپیش انسانیت سوز مظالم کے خلاف ہتھیار اٹھائے تھے۔’

طالبان تحریک کے بانی رُکن اور ملا عمر کے برسوں تک ترجمان رہنے والے ملا عبدالحئی مطمئن نے بھی اسی موضوع پر ایک کتاب لکھی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ قندھار کے علاوہ اس وقت افغانستان کے جنوب، جنوب مشرقی، مغربی اور مرکزی اور کئی دیگر پشتون اکثریتی صوبوں میں مقامی علما نے انفرادی طور پر اپنے علاقوں میں امن و امان کے لیے چھوٹی موٹی تحریکیں شروع کی ہوئی تھیں، مگر ان تحریکوں کا آپس میں ایک دوسرے سے رابطہ نہیں تھا۔

قندھار میں ملا عمر کی تحریک نے جب مختلف جہادی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے نامور کمانڈروں کو حیران کن شکستیں دیں اور ان کو صوبے سے نکال باہر کر کے اپنا اقتدار قائم کیا تو دیگر صوبوں سے مذہبی مدارس سے وابستہ لوگوں کی تحریکیں بھی جوق در جوق ملا عمر کے ساتھ شامل ہونے لگیں۔

لوگوں نے کس امید پر ابتدائی طالبان تحریک کی حمایت کی تھی؟

ملا عبدالحئی مطمئن اور ملا عبدالسلام ضعیف کے مطابق طالبان کی ابتدائی جنگی کامیابیوں کی دوسری اہم وجہ افغان جہادی تنظیموں کی آپس کی نااتفاقی اور باہمی قتل و قتال بھی تھا۔ ہر ایک نے قندھار سے طالبان کے بڑھتے ہوئے لشکر کی اس امید سے خفیہ اور غیر مشروط معاونت کی کہ شاید یہ لشکر ان کے مخالفین کو تباہ و برباد کر دے گا۔

طالبان نے ان کی یہ غلط فہمی جلد دور کر دی جب انھوں نے کسی بھی نسلی، لسانی، تنظیمی اور مسلکی تفریق کے بغیر تمام دوسری تنظیموں کا افغانستان سے خاتمہ کر دیا۔ پھر یہ سب شمالی افغانستان کے بعض علاقوں میں آپس کی رقابتیں پس پشت ڈال کر شمالی اتحاد کی سربراہی میں طالبان کو ختم کرنے کے لیے اکھٹے ہوئے مگر اُن کی یہ کوششیں بار آور ثابت نہ ہو سکیں۔

طالبان تحریک پر شروع سے گہری نظر رکھنے والے افغان صحافی سمیع یوسفزئی کا کہنا ہے کہ نوے کی دہائی میں طالبان تحریک کی کامیابی کی اصل وجہ یہی بنی کہ افغانستان میں برائے نام مرکزی حکومت تھی، جہادی تنظیمیں آپس میں دست و گریباں تھیں، بدامنی کا دور دورہ تھا اور اس مجموعی صورتحال سے پریشان عوام نے طالبان کی اُس امید پر حمایت کی کہ شاید ملک میں امن و امان قائم ہو جائے۔

مصنف اور سابق افغان وزیر دفاع شاہ محمود میاخیل کے مطابق امن و امان کے قیام کے ساتھ طالبان نے اپنے آغاز میں کچھ ایسے بیانات سے بھی کام لیا جس سے افغان عوام کو یہ امید ہو چلی کہ شاید طالبان افغانستان کے سابق بادشاہ ظاہر شاہ کو برسراقتدار لانا چاہتے ہیں، یعنی یہ امید کہ اس سے ستر دہائی سے قبل کی طرح ایک بار پھر ملک میں ایک کچھ حد تک مضبوط مرکزی حکومت میسر آ جائے گی۔

یوسفزئی کا کہنا ہے کہ کابل پہنچتے ہی طالبان نے ملک میں ایک انتہائی بنیاد پرست حکومت قائم کی جس سے افغانستان کے بیرونی دنیا پر دروزے بند ہو گئے اور افغان عوام کی نئی مشکلات کا آغاز ہوا۔

طالبان کی سخت گیر بنیاد پرست حکومت کے قیام سے افغان عوام مایوس اور بیزار ہو گئے مگر دوسری جانب طالبان کو اپنی حکومت کے قیام سے جلد ہی افغانستان میں موجود تجربہ کار غیر ملکی عسکریت پسندوں کی حمایت میسر آئی۔ اس حمایت نے طالبان کو عسکری محاذ اور ملک پر اپنا قبضہ جمانے میں بھرپور مدد فراہم کی۔

،تصویر کا کیپشن

سنہ 1996 میں بی بی سی نے ملا عمر کی ایک خفیہ ویڈیو بنائی تھی

طالبان تحریک کے آغاز کا پاکستان سے کیا تعلق؟

برسراقتدار آتے ہی طالبان نے افغانستان کے باہر موجود اپنے ہزاروں ساتھیوں کو بھی ملک واپس آنے کی دعوت دی۔

ان افراد میں ان کشمیری جہادی تنظیموں کے ارکان بھی شامل تھے جو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں مصروف عمل تھیں۔ اس کے علاوہ القاعدہ سمیت عرب دنیا اور وسطی ایشیا سے تعلق رکھنے والے جہادی تنظیموں کے تجربہ کار عسکری ماہرین نے بھی طالبان کی صفوں میں آنا شروع کیا۔ ان تنظیموں کے عسکری ماہرین طالبان کے مختلف جنگی محاذوں کے نگران بھی رہے اور ان کو عسکری تربیت بھی فراہم کرتے رہے۔

دیگر غیر ملکی عسکریت پسندوں کے طالبان دور حکومت میں نمایاں کردار نے طالبان کے مخالف افغان قوتوں کے اس بیانیے کو تقویت دی کہ دراصل طالبان ہمسایہ ملک پاکستان کا ایک ‘نیابتی گروہ’ ہے جس میں پوری دنیا کے انتہا پسند جہادی اکھٹے ہو چکے ہیں۔ اس تاثر نے طالبان مخالف افغان قوتوں کو آخر تک طالبان کے خلاف بین الاقوامی حمایت حاصل کرنے میں بڑی مدد فراہم کی۔

آج اگر دیکھا جائے تو اقوام متحدہ اور دیگر مستند اداروں کی رپورٹس اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ اب بھی افغانستان میں القاعدہ، وسطی ایشیائی گروہ اور پاکستانی جنگجو ہزاروں کی تعداد میں افغان طالبان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔

مگر طالبان نہ صرف ان کی موجودگی سے انکار کرتے ہیں بلکہ ان کو ایسی خفیہ حکمت عملی سے استعمال کر رہے ہیں کہ ان گروہوں کا نوے کی دہائی کی طرح کھلم کھلا افغان طالبان کے ساتھ اکٹھا ہونے کا کوئی مستند دستاویزی ثبوت موجود نہیں جو عوامی سطح پر طالبان کے خلاف استعمال کیا جا سکے۔

طالبان کے لیے دوسری اہم اندرونی مشکل ان پر پاکستان کا نیابتی قوت ہونے کا لیبل رہا ہے۔ تمام تر احتیاطی تدابیر کے باجود طالبان کو اب بھی افغانستان میں یہ طعنہ درپیش ہے جس سے افغانستان ہی میں موجود ایک اہم طبقہ اُن کا شدید مخالف ہے۔

،تصویر کا کیپشن

افغان فوج اور طالبان کے درمیان جاری لڑائی میں کئی خاندان بے گھر ہوئے ہیں

نائن الیون کے بعد طالبان کی پاکستان سے قربت مزید گہری اور وسیع ہوتی گئی۔ طالبان کو شمالی اتحاد کی بجائے اب ایک بہت بڑے طاقتور دشمن کا سامنا تھا جس کے خلاف طالبان نے ایک مضبوط سیاسی حکمت عملی سے کام لیا۔

ایک طرف القاعدہ اور دیگر پاکستانی ریاست دشمن مقامی اور غیر ملکی جنگجو اس کے پشتیبان تھے تو دوسری طرف ملا عمر نے حقانی نیٹ ورک کے سربراہ جلال الدین حقانی کو پاکستانی ریاست کے مقتدر حلقوں میں بااثر اپنے ہم خیال افراد کے پاس معاونت و حمایت کے لیے بجھوایا۔

پاکستانی فوج کے سابق سربراہ جنرل اسلم بیگ کے ایک انٹرویو کے مطابق سنہ 2003 کے اوائل میں حقانی ملا عمر کا پیغام لے کر بیگ سمیت راولپنڈی اور اسلام آباد کے دیگر اہم اشخاص سے بھی ملے۔ نائن الیون کے بعد پاکستانی فوج کی امریکہ کی حمایت کو پاکستان کی مجبوری قرار دے کر طالبان کی طرف سے ان سے صرف نظر کرنے اور طالبان کو درپیش بڑی جنگ کے لیے پاکستان سے تعاون کا تقاضہ کیا۔

افغانستان کی سیاست اور تاریخ پر نگاہ رکھنے والے پاکستانی سینیئر سیاستدان افراسیاب خٹک کا کہنا ہے کہ نوے کی دہائی میں طالبان کے لیے پاکستانی ریاست کی حمایت کوئی خفیہ معاملہ نہیں تھا بلکہ اس کا برملا اظہار کیا جاتا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ مگر نائن الیون کے بعد عالمی سیاست کے دباؤ کی وجہ سے اگرچہ پاکستانی ریاست نے اس حمایت سے ہمیشہ انکار کیا ہے مگر یہ اب پہلے سے ‘کئی گنا زیادہ ہو چکی ہے۔’

افغانستان کے اندر اب بھی جو طبقہ طالبان کا شدید مخالف ہے وہ نائن الیون کے بعد پروان چڑھنے والی وہ تعلیم یافتہ نوجوان نسل ہے جو عالمی اور علاقائی سیاست کے رموز سے آشنا ہے اور اسی لیے پاکستانی ریاست کی طالبان کے لیے اس ‘خفیہ حمایت’ سے آگاہی رکھتے ہوئے افغان طالبان کی شدید مخالف ہے۔

ماضی اور آج کے طالبان میں کیا فرق

آج کے طالبان کی عسکری قوت کا ایک اہم راز طالبان کا غیر پشتون اقوام کو اپنی صفوں میں جگہ دینا بھی ہو سکتا ہے۔

پاکستانی صحافی عقیل یوسفزئی کا کہنا ہے کہ نوے کی دہائی اور آج کے طالبان تحریک میں ایک بڑا اہم فرق یہ بھی ہے کہ نائن الیون کے بعد طالبان نے اپنی تحریک میں غیر پشتون اقوم کے افراد کو بھی اگے بڑھنے میں مدد دی۔

وہ سمجھتے ہیں کہ اس کی وجہ سے اس کا اثر و رسوخ شمالی افغانستان کے ان علاقوں میں بھی پھیلا جو اس کے مخالف شمالی اتحاد کے مضبوط گڑھ تھے۔

عقیل یوسفزئی کے مطابق اس دلیل کا ثبوت طالبان کی موجودہ قیادت پر نگاہ ڈالنے سے مزید واضح ہو جاتا ہے۔ مثلاً طالبان ملٹری کمیشن کے موجودہ نائب سربراہ قاری فصیح الدین کا تعلق صوبہ بدخشان کی تاجک قوم سے ہے۔

بدخشان اور اس سے متصل تخار ان دو تاجک اکثریتی صوبوں میں سے ہے جو شمالی اتحاد کے مضبوط گڑھ تھے اور طالبان ہر قسم کی کوششوں کے باوجود اس پر قبضہ نہیں کر سکے تھے۔

اب یہ دونوں ان اولین صوبوں میں سے ہیں جن کے تمام اضلاع پر ماسوائے صوبائی مراکز کے طالبان نے اپنے ان حلیہ پیش قدمیوں میں سب سے اول قبضہ کیا۔ طالبان کی شمالی افغانستان میں ان حیران کن پیش قدمیوں کی اصل حکمت عملی یہی بنی کہ انھوں نے گذشتہ دو دہائیوں میں ان قوموں کے اندرونی سماجی اور اقتصادی فاصلوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے اندر اپنے مضبوط ساتھی پیدا کیے۔

انٹرنیشنل کرائسز گروپ افغانستان سے وابسطہ نوجوان افغان محقق ابراہیم باحث کا کہنا ہے کہ اب تاجک اور ازبک کے علاوہ طالبان کی مقامی صفوں میں ہزارہ قوم کے لوگ بھی شامل ہیں جن کی طالبان کے ساتھ نائن الیون سے قبل خونریز جنگوں کی ایک سیاہ تاریخ ہے۔

حال ہی میں طالبان نے اپنے سرکردہ رہنما ملا امیر خان متقی کی ہزارہ اکثریتی افغانستان کے مرکزی صوبہ دایکندی میں ہزارہ عمائدین سے ملاقات کی ایک ویڈیو بھی نشر کی جس میں متقی ہزارہ قوم کے اہل تشیع کو طالبان کے بھائی قرار دیتے ہوئے ان کو مستقبل میں طالبان حکومت میں برابر کی نمائندگی دینے کی یقین دہانی کرواتے ہیں۔

عقیل یوسفزئی کے بقول طالبان کے قیام کے ابتدائی اہداف مقامی اور غیر واضح تھے۔ ان کو ایک سال کے اندر افغانستان کے پچاسی فیصد رقبہ سمیت کابل کا کنٹرول ملا اور یوں اچانک ان کو سارے ملک کا اقتدار مل گیا جس کے لیے وہ ذہنی طور پر تیار نہ تھے۔

اس لیے طالبان کو ایک کثیر افرادی قوت درکار تھی کہ وہ اپنے اقتدار کی تحفظ کر سکیں۔

شاید یہی ضرورت رہی ہو گی کہ جو باحث کا کہنا ہے کہ نوے کی دہائی کے طالبان کی عسکری قوت کی خاصیت یہ تھی کہ وہ قبائلی طرز پر تھی جس میں جنوبی افغانستان کے مختلف پشتون قبائل سے وابستہ طالبان کے اہم کمانڈروں کے اپنے قبیلے کے افراد کے مضبوط گروپ تھے۔ یہ طالبان کی عسکری قوت کو پورا کرتے تھے۔

مگر سال 2007 کے بعد طالبان کے اندر منظم تنظیم سازی نے جنم لیا۔

عسکری، سیاسی، میڈیا، مالی اور طرح طرح کے کمیشنز بنائے گئے جس کے تحت قبائل اور افراد کی بجائے طالبان کے تحریک کو نظم کے تابع کیا گیا۔

اس کے علاوہ صوبائی اور ضلعی اکائیوں میں تنظیمی تقسیمات کے ذریعے طالبان نے سارے ملک میں اپنے زیر اثر علاقوں کے لیے صوبائی اور ضلعی گورنرز تعینات کیے اور ایک متوازی حکومت بنائی۔ باحث کا کہنا ہے کہ تمام ذیلی عسکری گروہوں کو ختم کر کے انھیں تنظیم کی ساخت میں شامل کیا گیا اور جس نے اس کو ماننے سے انکار کیا اسے تحریک سے نکال باہر کیا گیا۔

افغان طالبان کے اعلیٰ قیادت کے نزدیکی خالد زدران نے بتایا کہ نوے کی دہائی میں طالبان کی ابتدا اگرچہ نوجوان طلبہ سے ہوئی تھی جو کہ جنگی اور سیاسی حکمت عملیوں سے نابلد تھے مگر اب طالبان ایک منظم قوت بن چکے ہیں۔

زدران کا کہنا ہے کہ طالبان اب ایک ایسے منظیم فوج کی تشکیل کے لیے تیاریاں کر رہے ہیں جن کی ایک ریگلور آرمی کی طرح باقاعدہ وردی اور ایک منظم تنظیمی ساخت ہو گی۔ زدران کے مطابق اب تک ان برسوں میں طالبان نے ایک لاکھ کے قریب جنگجوؤں کو تربیت دی ہے۔

زدران کا یہ دعویٰ طالبان کے امریکہ سے معاہدے کے بعد ان کی ویڈیوز سے بھی واضح ہے۔ ان میں طالبان نے اپنے جنگی تربیتی مراکز کی ویڈیوز نشر کی ہیں جن میں سینکڑوں تعینات افسران کو جدید عسکری تقاضوں کے مطابق جنگی تربیت دینے کی تفصیلات فراہم کی گئی ہیں۔

طالبان نے اپنے ان نئے تربیت یافتہ جنگجوؤں کا نام بھی ‘فاتح قوت’ رکھا ہے اور ان کا دعویٰ ہے کہ ان کی یہ کوششیں مستقبل میں ان کے زیر اقتدار افغانستان کی سرحدوں اور ملک میں امن کو برقرار رکھنے کے لیے جدید تقاضوں کے مطابق عسکری قوت تیار کرنے کا ایک تسلسل ہے۔

یاد رہے کہ دوحہ معاہدے کے بعد طالبان اپنے آپ کو افغانستان کی مستقبل قریب کے حکمران تصور کیے ہوئے ہیں اور اپنے حامیوں کو مسلسل یہ یاد دہانی کرواتے ہیں کہ امریکہ اور ان کی اتحادیوں کو افغانستان سے نکالنا ان کی جنگ کا ایک جزوی حصہ تھا۔

جبکہ ان کی بیس سالہ جدوجہد کا اصل مقصد ملک میں نوے کی دہائی کی طرح ان کے تعریف شدہ طرز کا اسلامی نظام دوبارہ قائم کرنا ہے۔

کیا طالبان دوبارہ کابل میں اپنی حکومت قائم کرسکتے ہیں؟

میاخیل کا کہنا ہے کہ موجودہ پیش قدمی اور اہم علاقوں پر قبضے کے باوجود طالبان کا تنہا کابل میں دوبارہ حکومت قائم کرنا ممکن نظر نہیں آتا۔

مگر یوسفزئی کا کہنا ہے کہ ایسا ممکن ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ طالبان ماضی کی طرح طاقت کے زور پر کابل میں حکومت قائم کر سکتے ہیں۔ تاہم موجودہ افغانستان پر حکومت کرنا ‘ان کے بس کا کام نہیں کیونکہ اب افغانستان کے لوگ جدید تعلیم سے آراستہ اور جمہوریت سے آگاہ ہو چکے ہیں اور ان پر طالبان اپنے ماضی کی طرح سخت گیر حکومت چلا نہیں سکتے۔’

یوسفزئی کا کہنا ہے کہ جب تک طالبان کی عالمی برادری کے ساتھ اپنے حکومت کے قیام پر سمجھوتہ نہ رہے اگرچہ وہ طاقت کے زور حکومت قائم کر بھی لیں گے مگر ان کو ماضی کی طرح عالمی برادری کی پابندیوں سے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

وہ کہتے ہیں کہ ابھی تک طالبان نے افغانستان کے جن اضلاع پر قبضہ کیا ہے اس سے عالمی برادری اس سلسلے میں طالبان سے شدید ناامید نظر آرہی ہے۔

Originally published at https://www.bbc.com on August 11, 2021.

--

--

Abdul Sayed

I am a research analyst focusing on jihadism, Afghanistan, and Pakistan.