Abdul Sayed
6 min readSep 18, 2020

القاعدہ سربراہ ایمن الظواہری نے رواں برس امریکہ پر حملوں کی دھمکی کیوں نہیں دی؟

Why the al-Qaida leader — Ayman Zawahiri — did not threaten the US on the nineteenth anniversary of the 9/11 attacks?

BBC News اردو

عالمی شدت پسند تنظیم القاعدہ کے مرکزی نشریاتی ادارے ‘السحاب میڈیا’ نے گیارہ ستمبر 2001 کے حملوں کے 19 برس مکمل ہونے پر تنظیم کے سربراہ ڈاکٹر ایمن الظواہری کی 42 منٹ دورانیے کی ایک تازہ ویڈیو جاری کی ہے۔

اس ویڈیو نے بطور محقق میرے لیے کئی سوالات کو جنم دیا ہے،جس کا مختصر تجزیہ ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے۔

القاعدہ ہر سال گیارہ ستمبر کے حملوں کے حوالے سے بھرپور پراپیگنڈہ مواد شائع کرتی ہے، اس مواد میں عموماً سنہ 2001 میں امریکہ کی سرزمین پر ہونے والے تباہ کُن حملوں کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر القاعدہ اور جہادیوں کے اہم امور کو زیرِ بحث لایا جاتا ہے۔

القاعدہ کے بانی سربراہ اسامہ بن لادن کے جاری کردہ خفیہ مکتوبات سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ القاعدہ کی قیادت ہر سال 11 ستمبر کو جاری کی جانے والی ویڈیو فلم کی تیاری پر کئی ماہ قبل تیاری شروع کر دیتی ہے۔

مگر ماہرین کے مطابق رواں برس القاعدہ کی یہ پراپیگنڈہ نشریات کافی کمزور رہی ہے۔

اگرچہ یہ ویڈیو 11 ستمبر کے موقع پر جاری کی گئی مگر رواں برس اس میں القاعدہ کی شناخت کا درجہ رکھنے والے 9/11 حملوں کا کوئی ذکر نہیں ہے۔

یہ فلم محض تنظیم کے موجودہ سربراہ ڈاکٹر اایمن الظواہری کے ایک مفصل ویڈیو بیان پر مشتمل ہے۔ ایمن الظواہری کی ساری گفتگو بذات خود ایک سوالیہ نشان ہے جو کہ تمام کی تمام بظاہر نسبتاً ایک غیر اہم موضوع پر مرکوز رہی ہے۔

ایمن الظواہری اپنی گفتگو کا آغاز امریکہ اور اسرائیل سے کرتے ہیں۔ امریکہ کو اسرائیل کی تقویت اور اس کی جغرافیائی پھیلاؤ کا اصل محرک قرار دیتے ہیں اور امریکہ اور اسرائیل کے علاوہ یورپ، چین، روس، انڈیا، ایران اور مسلمان ممالک کے حکمرانوں کو دشمن قرار دیتے ہیں۔

اگر دیکھا جائے تو یہ بیانیہ دراصل القاعدہ کے قیام کی اساسی وجوہات ہیں۔

القاعدہ کی بنیاد ان جہادیوں نے مل کر رکھی جن میں سے بعض کا ابتدائی ہدف اسرائیل تھا اور دیگر اپنے آبائی ملکوں کے نظام حکومت کے خاتمے کے لیے اپنے حکمرانوں سے لڑ رہے تھے۔

ان مختلف الفکر جہادیوں کو اسامہ بن لادن نے القاعدہ کے پلیٹ فارم پر اس نقطے پر اکھٹا کیا کہ دراصل ان دونوں مقاصد کا حصول تب ہی ممکن ہے کہ جب امریکہ کو شکست دی جائے۔ اسی رکاوٹ کو دور کرنے کے لیے القاعدہ نے امریکہ کی سرزمین پر گیارہ ستمبر 2001 کو تباہ کن حملوں کا ارتکاب کیا۔

مگر تعجب خیز بات یہ ہے کہ اس اہم موضوع کو نظرانداز کر کے ایمن الظواہری کی گفتگو کا اصل موضوع گذشتہ برس جولائی کے مہینے میں معروف نیوز چینل الجزیرہ کی جاری کردہ ‘پلئینگ ود دی فائر’ نامی ایک دستاویزی فلم ہے جس میں القاعدہ کو بعض ممالک کی پس پردہ حمایت یافتہ آلہ کار جماعت قرار دیا گیا تھا۔

ایمن الظواہری اپنی طویل بحث کے دوران اس فلم کے دعوؤں میں پائے جانے والے تضادات کی نشاندہی کرتے ہوئے دیکھنے والوں کو بار بار یہ باور کروانے کی کوشش کرتے ہیں کہ الجزیرہ چینل کے یہ تمام دعوے بے بنیاد ہیں اور القاعدہ کا کسی ملک سے کوئی پس پردہ تعلق نہیں ہے۔

اس پوری ویڈیو میں فقط الجزیرہ چینل اور اس کی دستاویزی فلم کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے جبکہ ماضی کی روایات کی طرح گیارہ ستمبر کی مناسبت سے دیگر اہم عالمی امور کا ذکر نہیں کیا گیا۔ اس میں کچھ ایسے واقعات ہیں کہ ایمن الظواہری کو بطور القاعدہ کے سربراہ ان کا ذکر نہ کرنا یقینا ایک تعجب انگیز پہلو ہے۔

مثلاً اسرائیل اور عرب ممالک کے حکمرانوں کے خفیہ گٹھ جوڑ کا تو شروع میں ذکر کیا گیا ہے مگر متحدہ عرب امارات کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلق کے آغاز کے اہم موضوع پر مکمل خاموشی ہے۔ حالانکہ القاعدہ کے ایک اہم موجودہ رہنما اور اسامہ بن لادن کے دیرینہ ساتھی خبیب سوڈانی نے اس موضوع پر فوراً ایک رسمی بیان جاری کیا تھا جس میں متحدہ عرب امارات اور دیگر عرب ممالک کے حکمرانوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

اس کے علاوہ افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان امن سمجھوتے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے قطر کے دارالحکومت دوحا میں جاری بین الافغانی امن مذاکرات کا بھی کوئی ذکر نہیں جو کہ گذشتہ کئی مہینوں سے ایک پیچیدہ موضوع رہا ہے۔

حال ہی میں القاعدہ کی یمنی شاخ اور القاعدہ کے حامی تصور کیے جانے والے عالمی سطح پر اہم جہادی مفکرین مثلاً ابو محمد المقدسی اور ابوقتادہ الفلسطینی نے ان مذاکرات پر خصوصی بیانات شائع کیے ہیں۔

اس طرح ماضی میں دیکھا گیا ہے کہ القاعدہ کی قیادت نے ہمیشہ مغرب میں ہونے والے گستاخانہ خاکوں اور قرآن کی بے حرمتی کے واقعات کا اپنی پراپیگنڈہ نشریات میں ہمیشہ بڑھ چڑھ کا ذکر کیا ہے اور اس کے ذریعے مسلمانوں کے جذبات کو عسکریت پسندی کی طرف ابھارنے کی کوششیں کی ہیں۔

القاعدہ کے پراپیگنڈہ مواد میں شروع سے یہ ایک اہم موضوع رہا ہے۔ مگر حال ہی یورپ کے فرانس اور سوئیڈن کے ممالک میں پیغبر اسلام کے گستاخانہ خاکے جاری کرنے اور قرآن کو نذرِ آتش کرنے کے واقعات کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔

ان اہم موضوعات کو نظر انداز کر کے ایک سال سے بھی زیادہ پرانے اور بظاہر نسبتاً غیر اہم موضوع کو زیربحث لانے کی وجہ سے یہ دعوٰی بھی کیا جا سکتا ہے کہ شاید ایمن الظواہری کی یہ ویڈیو ماضی میں ریکارڈ کر کے اب جاری کی گئی ہے۔

اس پہلو پر ایک دوسری دلچسپ رائے امریکہ کے سٹینفورڈ یونیورسٹی میں علوم سیاسیات کے استاد اور القاعدہ پر گہری نظر رکھنے والے محقق ڈاکٹر اسفند یار کی ہے جن کا کہنا ہے کہ ایمن الظواہری کے لیے اس موضوع کا انتخاب شاید اس لیے زیادہ اہمیت کا حامل ہو کیونکہ الجزیرہ عرب دنیا میں سب سے زیادہ دیکھا جانے والا چینل ہے۔

اس دستاویزی فلم سے شاید القاعدہ کو عرب دنیا سے ملنے والی اپنی مالی معاونت کے منافع پر ضرب لگنے کا اندیشہ ہے جس کی وجہ سے ایمن الظواہری نے اس اہم موقع پر فقط اس موضوع پر اتنی تفصیلی گفتگو کو ترجیح دی ہے۔

مگر یہ سوال پھر بھی اہم ہے کہ گیارہ ستمبر کے اس اہم موقعہ پر القاعدہ نے اٹھارہ سالہ تاریخ سے روگردانی کرتے ہوئے اس دفعہ کیوں امریکہ کو مسقتبل میں اس جیسے مزید حملے کرنے کی دھمکی کی روایت کو برقرار نہیں رکھا۔

اس کی دو ممکنہ وجوہات ہو سکتی ہیں۔

اول، یہ شاید مینا ال لامی جیسے ماہرین کی رائے اور امریکہ کے وزیر خارجہ مارک پومپیو کے دعوے کو تقویت بخشتا ہے کہ القاعدہ نامی تنظیم اب ایک قصہ پارینہ بن چکا ہے جن کے پاس نہ وہ مطلوبہ قیادت ہے، نہ وسائل اور نہ افرادی قوت کہ وہ ماضی کی طرح اپنی تنظیم کی دہشت کو برقرار رکھ سکے۔

اس کے برعکس میری نظر میں دوسری ممکنہ وجہ شاید القاعدہ کی ایک خاص حکمت عملی بھی ہو سکتی ہے جس کے تحت اس کے نشریاتی ادارے السحاب نے اس دفعہ قصداً مستقبل میں نائن الیون جیسے حملوں کے بارے میں تکرار کرنے کا باقاعدہ کوئی ذکر نہیں کیا۔

یہ نقطہ نظر اس لحاظ سے اہم کہ اقوام متحدہ کی رپورٹس اور امریکہ کے اعلی فوجی قیادت کے دعوؤں کے مطابق ایمن الظواہری اور القاعدہ کی دیگر مرکزی قیادت اب بھی افغانستان میں طالبان کے زیر کنٹرول علاقوں میں خفیہ پناہ لیے ہوئے ہے۔

ایسی صورت میں ایمن الظواہری کی امریکہ کو دھمکی شاید افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان ہونے والے امن معاہدہ کو پایہ تکمیل تک پہنچنے میں مسائل پیدا کریں جس میں ایک اہم شرط یہ ہے کہ افغان طالبان مستقبل میں افغانستان کی سرزمین کو امریکہ یا دیگر ممالک کے خلاف استعمال ہونے نہیں دیں گے۔

مندرجہ بالا تمام بحث کے علاوہ اس دستاویزی فلم کا القاعدہ کے لیے ایک اہم مثبت پہلو یہ ہے کہ اس میں تنظیم کے سربراہ کی نئی ویڈیو نشر کی گئی ہے۔ جو کہ اس لحاظ سے اہم ہے کہ گذشتہ کچھ عرصہ سے خصوصاً القاعدہ مخالف جہادی تنظیم، دولت اسلامیہ کی طرف سے یہ خبریں گردش کر رہی تھی کہ شاید ایمن الظواہری پیرانہ سالی کی وجہ سے اپنی طبعی موت مر چکے ہیں جس کی خبر کو القاعدہ والے طالبان کے رہنما ملا عمر کی موت کی طرح چھپا رہے ہیں۔

محقق عبدالسید نے عالمی سیاست میں سوئیڈن کی لنڈ یونیورسٹی سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی ہے اور اب وہ بطور ایک محقق کام کر رہے ہیں۔ اُن کی تحقیق کے موضوعات میں جنوبی ایشیا اور پاکستان افغانستان خطے کی سیاست اور سکیورٹی معاملات اور اسلامی شدت پسند تنظیموں کا مطالعہ شامل ہے۔

Originally published at https://www.bbc.com on September 18, 2020.

Abdul Sayed

I am a research analyst focusing on jihadism, Afghanistan, and Pakistan.