حکیم اللہ محسود کو خراجِ تحسین پیش کرتی ٹی ٹی پی کی فلم — BBC News اردو
کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے ابطال الامت 3 کے نام سے تقریبا چالیس منٹ کی ایک دستاویزی فلم جاری کی ہے جس میں افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان معاہدہ کو موجودہ دور کے جہادیوں کی بڑی فتح قرار دیا گیا ہے۔
اس ویڈیو کو پاکستانی طالبان کا افغان طالبان کے قریب یا زیر اثر ہونے کا ایک تاثر دینے کی کوشش بھی کہا جاسکتا ہے۔
یہ دستاویزی فلم ایک ایسے موڑ پر شائع کی گئی ہے کہ افغانستان میں طالبان کے ممکنہ اقتدار حاصل کرنے کے پیش نظر اکثر یہ سوال ابھرتا ہے کہ وہاں موجود پاکستان مخالف عسکری گرپوں کا مستقبل کیا ہوگا۔
اگرچہ ایک طرف افغان حکومت کو ان کا حامی قرار دیا جاتا ہے تو دوسری طرف وہ اس الزام کو اٖفغان طالبان کے سر تھوپتے ہیں کہ یہ عناصر دراصل افغان طالبان کے زیر اثر علاقوں میں موجود ہیں۔
حکیم اللہ محسود کو خراج تحسین
یہ ویڈیو تحریک طالبان کے نشریاتی ادارے عمر میڈیا نے کالعدم تنظیم کے سابق سربراہ حکیم اللہ محسود کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے چند روز قبل جاری کی ہے۔
حکیم اللہ محسود اگست 2009 میں پاکستانی طالبان کے بانی سربراہ بیت اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد گروپ کے دوسرے امیر بن گئے تھے جو کہ خود بھی نومبر2013 میں شمالی وزیرستان کے مرکز میرانشاہ کے قریب ایک مبینہ امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے تھے۔
حکیم اللہ محسود کا تعلق جنوبی وزیرستان کے علاقہ کوٹکی سے تھا اور وہ شروع سے بیت اللہ محسود کے قریبی ساتھیوں میں شمار کیے جاتے تھے۔
اس ویڈیو میں حکیم اللہ محسود کے عسکری زندگی کے مختلف مراحل کا ذکر کیا گیا ہے مثلاً، افغانستان کے سرحدی علاقوں میں افغان، امریکی اور اتحادی افواج کے خلاف مسلح حملوں کی قیادت، پاکستان میں شدت پسندی کے آغاز اور مختلف قبائلی ایجنسیوں میں پاکستانی طالبان کے قیام میں اس کا کردار۔
اس فلم میں خوست میں واقع سی آئی اے کے مرکز پر دسمبر2009 میں کیے گئے حملے کو حکیم اللہ محسود کا سب سے اہم منصوبہ بتایا گیا ہے۔
حالانکہ دیگر باوثوق ذرائع اور امریکی میڈیا کے دعوؤں کے مطابق اس کارروائی کی اصل منصوبہ سازی القاعدہ کے مرکزی قیادت نے کی تھی اور دعوٰی کیا جاتا ہے کہ حملے کے انجام تک حکیم اللہ کو اصل ہدف سے بے خبر رکھا گیا تھا۔
اس کے علاوہ مئی 2010 میں امریکہ کے شہر نیویارک میں پاکستانی شہری فیصل شہزاد کی دہشت گردی کے ناکام حملہ کا منصوبہ ساز بھی حکیم اللہ محسود کو قرار دیا گیا ہے۔ ان دونوں واقعات کے ویڈیو ثبوت بھی پاکستانی طالبان نے شائع کیے تھے۔
دیگر جنگجو گروپوں کے ساتھ تعلق
خاص طور پر حکیم اللہ محسود کے دیگر شدت پسند جہادی تنظیموں کے قیادت کے ساتھ دوستانہ روابط کو ابھارا گیا ہے جس میں سرفہرست افغان طالبان ہے۔
پاکستانی طالبان کو افغان طالبان کی ایک فطری پیداور قرار دیا گیا ہے۔ ایک جگہ افغان طاالبان کے موجودہ نائب سربراہ خلیفہ سراج الدین حقانی کی حکیم اللہ محسود کے امامت میں نماز کی ادائیگی جبکہ دوسری جگہ حقانی طالبان کے اہم کمانڈر مولوی سنگین زدران کے ساتھ حکیم اللہ کی بے تکلفانہ تعلق کو دیکھایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ملا داد للہ اور استاد یاسر کا ذکر بھی شامل ہے۔
اس طرح ازبک جنگجوں اور حکیم اللہ کے قریبی تعلق کو بھی دکھایا گیا ہے۔ القاعدہ کے ساتھ حکیم اللہ کے روابط کا کوئی ذکر نہیں اگرچہ بعض پاکستانی ماہرین بتاتے ہیں کہ تحریک طالبان شروع سے پاکستان میں القاعدہ کی فرنٹ لائن اتحادی اور زیر اثر رہی ہے۔
ویڈیو کے شروع میں پاکستانی طالبان کے مارے گئے اہم کمانڈروں اور پاکستان میں جہادیوں کے حامی تصور کیے جانے والے مختلف با اثر مذہبی اشخاص کو بھی دیکھایا گیا ہے، جن میں سرفہرست لال مسجد اور سپاہ صحابہ کی بعض قیادت اور کراچی کے کئی نامور دیوبندی علماٰٗ شامل ہیں، جو کہ سب ماضی میں مارے جا چکے ہیں۔
کئی عسکریت پسندوں کا ذکر نہیں
نیک محمد وزیر، عبداللہ محسود، بیت اللہ محسود، ولی الرحمان محسود، خالد سجنا محسود، قاری حسین محسود، شیخ خالد حقانی، مولوی فضل اللہ، عمر خلیفہ منصور سمیت پاکستان مخالف درجنوں اہم کمانڈروں کو بھی دیکھایا گیا جو کہ سب مارے جاچکے ہیں۔ مگر ان میں طارق آفریدی، قاری شکیل، وغیرہ کا ذکر نہیں ملتا جو کہ اس سلسلہ میں اہم نام تصور کیے جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ حال ہی میں افغانستان کے صوبہ کنڑ میں پاکستانی طالبان کے گڑھ سمجھے جانے والے ضلع مرورہ میں ہلاک ہونے والے حکیم اللہ محسود گروپ کے سربراہ شہریار محسود یا اس کے گروپ کا بھی کوئی ذکر نہیں۔
اسی طرح استاد احمد فاروق، الیاس کشمیری، بدر منصور، امجد فاروقی اور القاعدہ کے دیگر اہم پاکستانی قیادت کا بھی ذکر نہیں کیا گیا جن کا پاکستان میں ریاست خلاف عسکریت پسندی میں اہم کردار رہا ہے جبکہ القاعدہ کے بعض عرب رہنماوں مثلا اسامہ بن لادن، مصطفی ابو یزید، انوارالعلوقی، ابومصعب زرقاوی کو دیکھایا گیا ہے۔
ویڈیو میں دعوٰی کیا گیا ہے کہ نائن الیون کے بعد افغانستان میں پہلا خودکش حملہ کرنے والے بمبار کا تعلق پاکستان کے علاقہ وزیرستان سے تھا۔
دولت اسلامیہ یا افغان داعش کا ذکر بھی نہیں
ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اس ویڈیو میں دولت اسلامیہ خراسان یا افغان داعش کے موضوع پر خاموشی دکھائی گئی ہے جس کی بنیاد تحریک طالبان کے ان کمانڈروں نے رکھی جو کہ دراصل حکیم اللہ محسود کے قریبی اور دست راست سمجھے جاتے تھے جس میں سرفہرست شیخ مقبول اورکزئی المعروف شاہد اللہ شاہد اور تحریک طالبان پاکستان اورکزئی ایجنسی کی دیگر قیادت تھی۔
القاعدہ برصغیر اور افغان طالبان کے نشریاتی مواد میں ان پر سخت رد اور تنقید کی جاتی ہے مگر پاکستانی طالبان کا اس مہم ویڈیو میں ان کا ذکر نہ کرنا شاید ایک غور طلب پہلو ہے۔
Originally published at https://www.bbc.com on April 18, 2020.