داعش خراسان کے سربراہ کی ہلاکت کی اطلاعات پر طالبان کی خاموشی کیوں؟ —
عبدالسید، محقق، سویڈن
BBC News اردو
افغانستان میں نام نہاد عالمی شدت پسند عسکری تنظیم دولت اسلامیہ یا داعش خراسان کے گرفتار سربراہ شیخ ابو عمر خراسانی افغانستان کے دارالحکومت کابل میں 15 اگست بروزِ اتور کو افغان طالبان کے کابل پر قبضہ کے دوران مارے جا چکے ہیں۔
خراسانی کی جنازہ 16 اگست بروز پیر افغانستان کے دوپہر چار بجے افغانستان کے صوبہ کنڑ میں ان کے آبائی ضلع میں ادا کی گئی جس میں کثیر تعداد میں مقامی لوگوں اور ان کے رشتہ داروں نے شرکت کی۔ اس کی تصدیق بی بی سی اردو کو ان کے خاندانی ذرائع اور ان کی آخری رسومات میں شرکت کرنے والے افراد نے کی۔
خراسانی کے علاوہ کابل کے بگرام، پلِچرخی اور افغان ادارے نیشنل ڈائیریکٹوریٹ آف انٹیلجنس یا امنیت ملی کے خصوصی جیلوں میں تقریباً دو ہزار کے قریب داعش قیدی موجود تھے جن میں اکثر دیگر قیدیوں کے ساتھ فرار ہوچکے ہیں مگر داعش کے کئی قیدی اس فرار کے دوران مارے بھی جاچکے ہیں۔ مختلف اطلاعات کے مطابق ان واقعات میں داعش کے اسی سے ڈیڑھ سو کے قریب قیدی مارے گئے ہیں جن میں بیشتر بگرام جیل سے فرار ہونے کے وقت قتل کیے گئے ہیں۔
،تصویر کا ذریعہ Getty Images
،تصویر کا کیپشن
افغانستان میں طالبان کی جانب سے صوبائی دارالحکومتوں اور کابل پر قبضے کے دوران کئی جیلوں سے سینکڑوں قیدیوں کو آزاد کروایا گیا جن میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور دیگر شدت پسند تنظیموں کے کارکن بھی شامل ہیں
داعش قیدیوں کے مارے جانے متعلق مختلف دعوے
داعش قیدیوں کے مارے جانے کے متعلق مختلف دعوے سامنے آئے ہیں۔ طالبان، داعش کے مارے جانیوالے قیدیوں کے لواحقین اور کابل میں موجود معتبر صحافتی ذرائع کا کہنا ہے کہ داعش کے قیدی اس وقت مارے گئے جب بگرام جیل میں قیدیوں کا ہجوم طالبان کے کابل پہنچنے کے ساتھ جیل حکام پر ہلہ بول کر جیل سے نکلنے میں کامیاب ہوگیا مگر جیل سے نکلنے کے بعد راستہ میں ان پر ڈرون حملہ ہوا۔ کابل میں موجود طالبان کی سینیئر قیادت کے اہم ساتھی خالد زدران نے بتایا کہ اس ڈرون حملہ میں طالبان کے کئی قیدی بھی مارے جا چکے ہیں۔
بگرام جیل سے نکلنے کے بعد قتل ہونے والے داعش کے ایک دوسرے قید رکن کے لواحقین نے راقم الحروف کو کہا کہ انھوں نے اپنے مارے جانے والے رشتہ دار کی لاش کو بگرام سے لیتے وقت وہاں بمباری میں تباہ ہونے والی گاڑیاں اور دیگر نقصانات اپنے آنکھوں سے دیکھے۔ اس بمباری میں مارے گئے بیشتر قیدیوں کی لاشیں بری طرح جھلس چکی تھیں جن میں سے اکثر کو کابل کے مختلف ہسپتالوں لے جایا گیا۔ وہاں سے مارے گئے قیدیوں کے لواحقین نے یہ لاشیں وصول کیں۔
داعش کے اس مارے گئے رکن نے جیل سے نکلنے کے بعد اپنے اہلخانہ کو موبائل فون کے ذریعے اطلاع دی تھی کہ وہ دیگر قیدیوں کے ساتھ جیل سے نکل کر آذاد ہوچکا ہے اور جلد گھر پہنچنے والا ہے مگر جب ان کی دوبارہ خبر نہ آئی اور ساتھ میں بگرام سے نکلنے والے قیدیوں کے مارے جانے کی اطلاع ان کے گھر والوں کو ملی تو وہ ان کو ڈھونڈنے کے لیے باگرام پہنچ گئے جہاں منگل کے روز ان کو ڈرون حملہ میں ان کی جلی ہوئی لاش ملی۔ بگرام جیل میں موجود طالبان جنگجوؤں کے کمانڈر نے بھی انھیں بتایا کہ اس بمباری میں ان کے بھی بگرام میں قید کئی ساتھی مارے جا چکے ہیں۔
ان لواحقین نے بتایا کہ اپنے رشتہ داروں کی لاشوں کو ڈھونڈنے کے لیے جب وہ بگرام میں ان مارے گئے قیدیوں کو پلٹ کر دیکھ رہے تھے تو ان میں کئی لاشیں بری طرح خراب ہوگئی تھی مگر وہاں کچھ ایسے لاشیں بھی تھیں جن پر فقط گولیوں کے نشانات تھے۔ اس لیے ان کا دعویٰ ہے کہ شاید ان پر وہاں موجود افغان سکیورٹی اہلکاروں نے بھی اس ڈر سے فائرنگ کی ہو کہ کہیں یہ قیدی ان کو نقصان نہ پہنچائیں۔
خراسانی کابل میں بگرام فوجی مرکز کے ایک الگ حصہ میں افغان انٹیلجنس ایجنسی کے ایک خصوصی جیل میں قید تھے۔ یہ بات ایک غیر ملکی صحافی نے راقم الحروف کو بتائی جس نے خراسانی کے مارے جانے سے محض ایک ہفتہ قبل اس سے افغان انٹیلجنس کے توسط اس خصوصی جیل میں انٹرویو کے لئے ملاقات کی تھی۔
خراسانی کے بارے میں طالبان کی خاموشی
خراسانی بگرام جیل کے جس احاطہ میں تھا وہ ڈرون کا نشانہ بننے کی جگہ سے کافی دور ہے۔ ایک دعوے کے مطابق افغان اہلکاروں نے خراسانی کو اس کے آٹھ دیگر قید ساتھیوں سمیت جیل سے نکلتے وقت قتل کیا۔ جبکہ خراسانی کے بعض قریبی خاندانی ذرائع کے مطابق انھیں افغان طالبان نے اس خصوصی جیل پر قبضہ کرنے کے بعد قتل کیا ہے۔
طالبان کے ہاتھوں خراسانی یا داعش کے قیدیوں کا مارا جانا خارج از امکان نہیں۔ کابل پر طالبان کے قبضہ سے پہلے اس کے حامی سوشل میڈیاپر کھلم کھلا اس بات مطالبہ کر رہے تھے کہ داعش کے طالبان کے خلاف ماضی میں مظالم کی وجہ سے ان کے قیدیوں کو زندہ نہ چھوڑا جائے۔ اس کے علاوہ اہم طالبان ارکان نے بھی آف دی ریکارڈ کئی مرتبہ بتایا کہ داعش کے لیے طالبان کی طرف سے کوئی معافی نہیں اور ان کو طالبان محکموں کے فیصلوں کے مطابق سزا دی جائے گی۔
اس سلسلہ میں طالبان کے کئی رہنماوں سے بات کرنے کی کوشش کی گئی مگر ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا۔ بعض نے بتایا کہ وہ اس معاملہ پر معلومات نہیں رکھتے اور اس موضوع کی حساسیت کی بنا پر اس سلسلہ میں ان کا نام نہ لیا جائے۔
جہادی گرہوں پر گہری نظر رکھنے والے ممتاز صحافی احسان ٹیپو محسود کا کہنا ہے کہ طالبان کے اس موضوع پر بات نہ کرنے کی ایک وجہ افغانستان سے آنے والی یہ اطلاعات ہیں کہ طالبان داعش کے سابق ارکان کو اپنے صفوں میں شامل کریں۔ لہذا، اس حالت میں داعش کے سابقہ رہنما کے قتل کو سراہنا یا اس میں ملوث ہونے کا اقرار کرنا ان کے لئے فائدہ مند نہیں ہوسکتا۔
کابل میں موجود باخبر صحافتی ذرائع نے وہاں پر موجود غیر یقینی صورتحال کے خوف کی وجہ سے نام نہ بتانے کی شرط پر داعش قیدیوں کی حکومتی بمباری میں مارے جانے کی تصدیق کی ہے اور یہ بھی بتایا کہ اس بمباری میں بچ کر فرار ہونے والے بعض داعش قیدیوں کو طالبان نے بھی مارا ہے۔
اس کے علاوہ ان ذرائع کا کہنا ہے کہ خراسانی کے مارے جانے کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ وہ ماضی میں داعش کے عروج کے دوران کنڑ صوبے میں بے شمار مظالم کے واقعات میں ملوث رہے ہیں۔ ان کے حکم پر مقامی لوگوں کے سر کاٹے گئے ہیں اور طرح طرح کے نقصانات ان کو ملے ہیں ۔ لہذا یہ بھی قوی امکان ہے کہ طالبان یا افغان سیکورٹی فورسز میں کسی نے ذاتی نقصانات کے بدلہ میں ان کو مارا ہو۔
اس کے علاوہ پلِچرخی جیل میں موجود داعش کے اکثر قیدی دیگر فرار ہونے والے قیدیوں کے ساتھ وہاں سے نکل کر جا چکے ہیں۔ بگرام میں سب سے حساس اور اہم قیدیوں کو تفتیش کے لیے رکھا جاتا اور پھر ان کو بعد میں پلِچرخی جیل منتقل کیا جاتا جو کہ افغانستان کا سب بڑا جیل ہے۔
بعض مقامی ذرائع نے رہا ہونے والے قیدیوں کے حوالے سے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ ان قیدیوں کے بقول جب سابق افغان حکومت کے سیکورٹی اہلکاروں نے پلچرخی جیل کو طالبان کے حوالے کیا تو طالبان نے داعش قیدیوں کو الگ کرنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں داعش قیدیوں اور طالبان کے درمیان شدید دست بدست لڑائی شروع ہوئی۔
اس لڑائی میں داعش کے پانچ قیدی مارے گئے مگر داعش کے ارکان طالبان سپاہیوں کو پیچھے دھکیل کر اپنے تمام قیدیوں کو نکلنے کی راہ فراہم کر گئے۔ اس طرح وہاں سینکڑوں کی تعداد میں قید داعش کے جنگجو دیگر قیدیوں کے ریلے میں شامل ہو کر جیل سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔
کنڑ اور ننگرہار داعش کا گڑھ رہا ہے۔ داعش کے ان بیشتر قیدیوں کا تعلق ان صوبوں سے رہا ہے اور وہاں کے مقامی ذرائع کے مطابق کہ یہ قیدی اگرچہ رہا ہوچکے ہیں مگر اب بھی طالبان کے ہاتھوں دوبارہ گرفتاری سے بچنے کے لیے گھروں کی بجائے انفرادی طور پر نامعلوم مقامات پر چھپے ہوئے ہیں۔
شیخ ابو عمر خراسانی کون تھا؟
خراسانی کا اصل نام مولوی ضیاالحق تھا اور ان کا تعلق افغانستان کے صوبہ کنڑ کے ضلع سوکئی کے دیوہ گل درہ سے تھا۔ خراسانی کا تعلق سلفی مکتبہ فکر سے تھا اور صوبہ کنڑ میں داعش خراسان کے اہم بانی رہنما تھے۔ خراسانی کے ایک بھائی افغان حکومت کی طرف سے صوبہ کنڑ میں 2001 کے بعد اب تک اہم عہدوں پر رہ چکے ہیں جبکہ ان کے دوسرے بھائی داعش خراسان کے قاضی رہے ہیں جنھیں بعد میں افغان حکومت نے گرفتار کیا۔ خراسانی صوبہ کنڑ سے سال 2018 میں افغان رکن پارلیمنٹ منتخب ہونے والے جاوید صافی کے کزن تھے۔ وہ حال تک افغان پارلیمنٹ کے ایک فعال رکن اور سابق صدر اشرف غنی کے اہم حمایتی تھے۔
داعش خراسان کے منحرف سابق ارکان کے مطابق خراسانی اپریل 2017میں داعش خراسان کے دوسرے امیر شیخ عبدالحسیب لوگری کے امریکی سپیشل فورسز کے حملہ مارے جانے کے بعد ان کے جانشین بنے۔ ان کی سربراہی کے دوران داعش خراسان میں کافی اندرونی اختلافات پیدا ہوئے اور تقریباً ڈیڑھ سال کے بعد داعش کے مرکزی قیادت نے انھیں اس عہدے سے ہٹایا مگر وہ پھر بھی افغانستان میں داعش سے منسلک رہے۔
داعش ذرائع کے مطابق بعد میں داعش قیادت نے خراسانی کو وسطی ایشیا کے لئے اپنی تنظیم کا سربراہ مقرر کیا۔ صوبہ کنڑ کے سابق حکومتی اہلکاروں کے مطابق داعش کے عروج کے وقت خراسانی کے زیر کنڑول داعش کے کنڑ کے علاقوں میں کافی تعداد میں وسطی ایشیا اور دیگر ممالک کے غیر ملکی جنگجو آباد تھے، شاید اس اثر رسوخ کی وجہ سے داعش کے مرکزی قیادت نے بعد میں انھیں اس نئے عہدے پر مقرر کیا تھا۔
پچھلے سال مئی کے مہینے میں افغان حکومتی فورسز نے کابل سے خراسانی کی گرفتار کا دعویٰ کیا مگر کابل میں موجود باخبر ذرائع کے مطابق داصل کنڑ میں طالبان کے ہاتھوں ان کی شدید شکستوں کے بعد افغانستان میں موجود داعش کے تمام ٹھکانوں کا خاتمہ ہو چکا تھا جس کی وجہ سے خراسانی نے اپنے قریبی اہم ساتھیوں سمیت طالبان سے بچنے کے لیے حکومت کے سامنے سرنڈر کیا تھا۔
داعش خراسان
افغانستان میں داعش خراسان نے اس وقت سر اُٹھایا جب پاکستانی طالبان کے سابقہ اہم کمانڈروں نے پاکستان کے سابقہ خیبر ایجنسی کے تیراہ وادی میں2014 کے آواخر میں اس کی بنیاد رکھی مگر وہاں سے جلد ہی پاکستانی فوج کی فوجی آپریشن کی وجہ سے وہ دیگر عسکریت پسندوں کی طرح افغانستان کے ملحقہ صوبہ ننگرہار منتقل ہوگئے۔ جلد ہی داعش نے یہاں پر افغان طالبان اور افغان حکومتی فورسز کے خلاف شدید جنگیں شروع کیں اور اس طرح ننگرہار کے بیشتر علاقوں پر قبضہ کر لیا۔
داعش پاکستان اور افغانستان میں شروع سے چونکہ سلفی مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد کا اکثریتی گروہ بن گیا تھا لہذا اس نے جلد ہی ننگرہار سے متصل افغان صوبہ کنڑ میں بھی قدم جما لیے۔ یاد رہے کہ کنڑ سلفیوں کا کئی دہائیوں سے اہم مرکز رہا ہے۔
یہاں داعش کا اثر رسوخ تب مزید مضبوط ہوا جب طالبان اور افغان فوج کے ساتھ شدید جنگوں اور امریکی فوج کی انسداد دہشتگردی کے حملوں میں داعش کو شدید جانی نقصانات کی وجہ سے شکستوں کا سامنا کرنا پڑا اور اس کے جنگجو یہاں سے فرار ہو کر کنڑ کے بعض اضلاع کو اپنا گڑھ بنا گئے۔
اس میں سرفہرست خراسانی کا آبائی ضلع سوکئی اور اس سے متصل پرپیچ پہاڑی درے تھے جو کنڑ میں داعش کے مضبوط گڑھ بن گئے۔ مگر طالبان، افغان فورسز اور امریکی فضائی حملے جلد یہاں بھی اس کا پیچھے کرتے آئے اور بلآخر پچھلے سال فروری کے مہینے میں داعش کا یہاں سے بھی مکمل صفایا کردیا گیا۔ داعش کے باقی ماندہ جنگجو طالبان کے ہاتھوں موت سے بچنے کے لیے افغان حکومت کو سرنڈر ہوگئے جن میں سے اکثریت کو کابل کے بگرام اور پلچرخی جیلوں میں منتقل کیا گیا۔
Originally published at https://www.bbc.com on August 24, 2021.