داعش کے خودکش حملے کا نشانہ بننے والے رحیم اللہ حقانی کون تھے؟ —
BBC News اردو
،تصویر کا کیپشن
شیخ رحیم اللہ حقانی
افغانستان کے دارالحکومت کابل میں گیارہ اگست جمعرات کی دوپہر افغان طالبان کے بااثر مذہبی رہنما شیخ رحیم اللہ حقانی کو ایک خودکش حملے میں نشانہ بنایا گیا جس میں وہ اپنے کمسن بیٹے، بھائی نقیب اللہ اور قریبی ساتھیوں سمیت مارے گئے۔
مولوی حقانی کی نماز جنازہ جمعے کے صبح ان کے آبائی صوبے ننگرہار کے دارالحکومت جلال آباد میں ادا کی گئی جس میں افغان وزیر تعلیم مولوی عبدالباقی حقانی سمیت افغان طالبان کی سینیئر قیادت کے علاوہ مقتول کے شاگردوں اور طالبان جنگجوؤں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
افغان طالبان کے ڈپٹی ترجمان بلال کریمی کے مطابق مولوی حقانی کو دارالحکومت کابل کے پولیس حلقہ دوئم کے علاقہ ششدرک میں واقع ان کے مذہبی درسگاہ میں نشانہ بنایا گیا۔
افغان طالبان کے سکیورٹی حکام نے کابل سے بی بی سی اردو کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ مولوی حقانی کو حملے کا نشانہ بنانے والے خودکش حملہ آور معذور تھا جس نے بارودی مواد اپنے مصنوعی ٹانگ میں چھپا کر مولوی حقانی کو ساتھیوں سمیت خودکش بم حملے میں نشانہ بنایا۔
ابتدائی اطلاعات کے مطابق خودکش حملہ آور کو مولوی حقانی کے کسی قریبی جاننے والے کی سفارش پر مدرسے میں واقع ان کے دفتر میں ان سے ملنے کی اجازت دی گئی تھی کیونکہ ماضی میں کئی مرتبہ قاتلانہ حملوں کا نشانہ بننے کی وجہ سے سخت سکیورٹی انتظامات کی وجہ سے غیر متعلقہ افراد کا ان تک پہنچنا ناممکن تھا۔
عالمی شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ یا داعش کے مرکزی رسمی نشریاتی ادارے عماق کے مطابق شیخ حقانی کو داعش کے افغانستان اور وسطی ایشیا سمیت پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے لیے علاقائی شاخ داعش خراسان نے ایک خودکش حملہ میں نشانہ بنایا۔ عماق نے حملے کی تفصیلات میں خودکش حملہ آور کی تصویر اور دیگر معلومات نشر کی ہیں جس کے مطابق حملہ آور کا نام خالد اور تعلق کابل سے متصل افغان صوبہ لوگر سے تھا۔
شیخ حقانی کا قتل افغانستان اور اس سے متصل پاکستان کے صوبہ خیبرپختوانخوا میں اہلسنت مکتبہ فکر کے سلفی یا اہلحدیث اور حنفی مکتبہ فکر کے ایک محدود مذہبی حلقوں کے درمیان جاری مبینہ فرقہ وارانہ کشیدگی کا نتیجہ قرار دیا جا رہا ہے۔ جس میں داعش خراسان کے سامنے آنے کے بعد دونوں طرف سے سرکردہ مذہبی رہنماوں کو نشانہ بنایا گیا۔
داعش خراسان کے بیشتر جنگجوؤں کا تعلق سلفی مکتبہ فکر سے تھا جس نے افغانستان میں دیگر عوامل کے ساتھ مذہبی اختلافات کے بنا پر افغان طالبان کے مقابل ایک متوازی شدت پسند مسلح تحریک قائم کرکے طالبان کے بقا کے لیے خطرات پیدا کیے۔
داعش کے برعکس افغان طالبان کے اکثریت کا تعلق ملک کے اکثریتی حنفی مکتبہ فکر سے ہے جو افغانستان میں صدیوں سے ایک اکثریتی مکتبہ فکر ہے۔ اس لیے افغانستان میں داعش اور طالبان کی لڑائی جلد ہی اہلسنت مکتبہ فکر کے اندرونی فرقہ وارانہ جنگ کی شکل اختیار کر گئی۔
اس مضمون کا مقصد مولوی حقانی کے قتل کا داعش اور افغان طالبان کے جنگ کی پس منظر سے ایک جائزہ لینا ہے۔
،تصویر کا ذریعہ Social media
مولوی رحیم اللہ حقانی کون تھے؟
‘ڈرامہ کوئین’ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا
قسطیں
مواد پر جائیں
مولوی رحیم اللہ حقانی کا تعلق افغانستان کے مشرقی صوبہ ننگرہار کے ضلع پچیر وآگام سے تھا جو پاکستان کی سرحد کے قریب ہے۔ تاہم وہ کئی دہائیوں سے پاکستان کے صوبے خیبر پختوانخوا کے ضلع پشاور میں مقیم رہے ہے۔
مولوی حقانی نے اپنی تعلیم خیبر پختونخوا میں دیوبند مکتبہ فکر کے نامور مذہبی درسگاہ جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک سمیت صوبے کے مختلف مدارس سے حاصل کی ہے۔ چارسدہ سے تعلق رکھنے والے پاکستان میں دیوبندی مکتبہ فکر کے سرکردہ مذہبی عالم شیخ محمد ادریس ان کے استاد رہے ہیں۔
تعلیم سے فراغت کے بعد وہ صوبائی دارالحکومت پشاور کی دیر کالونی میں واقع جامعہ زبیریہ سمیت مختلف مذہبی درسگاہوں میں ایک طویل عرصہ تک تدریس سے وابسطہ رہے۔ اس کے بعد وہ جامعہ زبیریہ کے صدر مدرس بنے جہاں ان سے مذہبی تعلیم حاصل کرنے کے لیے پاکستان کے علاوہ افغانستان کے مختلف صوبوں سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں طلبا آتے رہے۔
ان کے شاگردوں میں افغان طالبان کے کمانڈر اور رہنماؤں کی اکثریت شامل تھی جس کی وجہ سے انھیں افغان طالبان کے حلقوں میں ایک بااثر مقام حاصل تھا۔
گذشتہ برس اگست میں افغان طالبان کے ملک پر قبضے کے چند ماہ بعد مولوی حقانی نے پشاور سے دارالحکومت کابل منتقل ہو کر یہاں ایک نئی مذہبی درسگاہ قائم کی جہاں جلد ہی ملک کے مختلف کونوں سے سینکڑوں نے شاگرد آن پہنچے۔
مولوی حقانی کے اپنے بیانات کے مطابق وہ نہ صرف افغان طالبان کے ملٹری کمیشن کے رکن تھے بلکہ ننگرہار سمیت مختلف صوبوں میں ان کے زیر اثر کئی جنگجو کمانڈر تھے اور اس طرح ان کا امریکہ و اتحادی افواج اور سابق افغان حکومت کے علاوہ داعش کے خلاف طالبان کی جنگ میں ایک بااثر کردار رہا تھا۔
،تصویر کا ذریعہ Twitter
ایک معتدل طالبان مذہبی رہنما
مولوی حقانی کا ایک طرف فرقہ وارانہ اختلافات میں شدت پسندانہ رویہ تھا تو دوسری طرف طالبان حکومت کے خواتین کی تعلیم پر پابندی جیسے فیصلوں کی شدید مخالف کی وجہ سے انھیں طالبان کے حامی مذہبی رہنماؤں میں ایک معتدل فکر والے مذہبی رہنما کے طور پر جانا جاتا تھا۔
مولوی حقانی نے افغان طالبان کے سربراہ مولوی ہبت اللہ اور شوریٰ کی طرف سے عورتوں کے تعلیم پر پابندی برقرار رکھنے پر میڈیا میں شدید تنقید کرکے اسے طالبان کے ہی مذہبی عقائد کے خلاف قرار دیا اور اس کے خلاف سخت مہم چلائی۔
طالبان حکومت کے نوجوان حکام کے مطابق حکومتی امور میں اپنے معتدل خیالات کی وجہ سے انھیں طالبان کی نوجوان قیادت میں کافی پذیرائی حاصل تھی۔ طالبان کی عمر رسیدہ قیادت کے برعکس یہ نوجوان رہنما ماضی کے بعض شدت پسندانہ فیصلوں کو اپنی حکومت کی ناکامی کے لیے ایک خطرہ سمجھتے ہیں۔
طالبان کے اندرونی ذرائع کے مطابق ملکی و عالمی میڈیا پر عورتوں کی تعلیم پر پابندی کے فیصلے پر مسلسل تنقید کی وجہ سے مولوی حقانی کو بعض بااثر طالبان رہنماوں کی طرف سے سخت نتائج کی دھمکی دی گئی تھی جس کے بعد وہ اس موضوع پر اعلانیہ اظہار میں احتیاط برتنے لگے تھے۔
سلفی مکتبہ فکر کے خلاف سخت موقف اور داعش کا نشانہ
افغان صحافی سمیع یوسفزئی نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ مولوی حقانی سلفی مکتبہ فکر کے خلاف ایک شدت پسند موقف رکھتے تھے۔ اگرچہ انھیں افغان طالبان کے اندر وسیع حمایت حاصل تھی تاہم سلفی مکتبہِ فکر کے خلاف سخت بیانات کی وجہ سے وہ ایک متنازع شخصیت بن گئے تھے اور اسی لیے وہ داعش کے اہداف کی لسٹ میں شامل ہو گئے تھے۔
سوشل میڈیا پر موجود مولوی حقانی کی سینکڑوں ویڈیوز میں مذہبی مباحثوں اور بیانات سے اس وات کی توثیق ہوتی ہے کہ وہ داعش کے قیام سے برسوں قبل پشاور میں سلفی مسلک کے مذہبی رہنماؤں کے ساتھ ایک شدید فرقہ وارانہ جنگ کا اہم کردار رہے ہیں۔ ان ویڈیوز کے مطابق شدید مذہبی اختلافات کی وجہ سے مولوی حقانی اپنے مخالف سلفی مکتبہ فکر کی تکفیر کرکے انھیں دائرہ اسلام سے خارج یا گمراہ مسلمان قرار دیتے تھے۔
مولوی حقانی کو داعش کی افغان طالبان کے خلاف جنگ کے بعد سے طالبان کے اندر ایک نمایاں مقام حاصل ہوا۔
افغانستان میں طالبان اور داعش کی جنگ شروع ہونے کے ساتھ ہی پشاور میں مقیم افغان طالبان کے کمانڈروں کے ساتھ ان افراد کو بھی داعش نے نشانہ بنانا شروع کیا جو سلفی مکتبہ فکر پر اعلانیہ تنقید کی وجہ سے متنازع حیثیت اختیار کرچکے تھے۔
داعش کے ان ابتدائی حملوں مولوی حقانی کو بھی نشانہ بنایا گیا جب پشاور میں ان پر دینی درسگاہ کے قریب سن 2016 میں آتشیں اسلحے سے حملہ کیا گیا تاہم وہ اس میں محفوظ رہے۔
اس کے بعد اکتوبر 2020 میں مولوی حقانی کو دوران تدریس جامعہ زبیریہ ہی میں ایک بم حملے کا نشانہ بنایا گیا جس میں وہ محفوظ رہے مگر ان کے سو سے زیادہ شاگرد زخمی اور درجن کے قریب مارے گئے تھے۔ اگرچہ داعش نے اس حملے کی رسمی ذمہ داری قبول نہیں کی تھی مگر مولوی حقانی نے حملے کے فورا بعد اس حملہ کے لیے داعش کو ذمہ درا قرار دیا تھا۔
افغان دارالحکومت کابل ہی میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سلفی مکتبہ فکر کے دو بااثر مذہبی رہنماؤں کو بھی پراسرار حملوں میں قتل کردیا گیا تھا جو بظاھر طالبان اور داعش کے جنگ کے اس فرقہ وارانہ پس منظر کی کڑیاں ہیں۔
اس سلسلے میں پچھلے ماہ 14 جولائی کو ننگرہار ہی سے تعلق رکھنے والے اور مولوی حقانی کی طرح خیبر پختوانخوا میں تعلیم و تدریس کے ساتھ ایک طویل عرصہ منسلک رہنے والے سلفی مذہبی رہنما شیخ سردار ولی کا پراسرار قتل بھی شامل ہے، جنھوں نے طالبان کے حکومت میں آنے کے بعد ان کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔
اگرچہ طالبان حکام نے رسمی طور پر شیخ سردار ولی کے قتل کی تردید و مذمت کی اور اس کے لیے داعش خراسان کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا مگر داعش خراسان اس قتل کے لیے طالبان کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوائے اسے ان کی سلفی مخالف پالیسیوں کا تسلسل قرار دیا تھا۔
سمیع یوسفزئی کے مطابق افغان طالبان کے اندر بعض فرقہ وارانہ عناصر کی جانب سے سلفیوں پر بڑھتی مذہبی پابندیوں کی وجہ سے ان کو طالبان کے خلاف جنگ میں داعش کی حمایت کی طرف دھکیلا جا رہا ہے جس سے ملک میں ایک نیا خطرناک رجحان پیدا ہو رہا ہے۔
ان کے مطابق اگر طالبان قیادت نے ان فرقہ وارانہ عناصر کو کنٹرول نہیں کیا تو اس سے ملک ایک خطرناک جنگ کی طرف جاسکتا ہے۔
Originally published at https://www.bbc.com on August 12, 2022.