عمر خالد خراسانی: افغانستان میں ہلاک ہونے والے سینیئر ٹی ٹی پی کمانڈر کون تھے؟ —
BBC News اردو
افغانستان کے جنوب مشرقی صوبہ پکتیکا کے ضلع برمل میں پاکستانی طالبان کا گڑھ سمجھے جانے والے علاقے مارغہ میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سینیئر کمانڈر عبدالولی مہمند عرف عمر خالد خراسانی اتوار کی شام ایک پُراسرار بارودی بم دھماکے میں ہلاک ہو گئے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق خراسانی کی گاڑی مارغہ سے قریبی ضلعے ارگون کے سفر کے دوران ایک بڑے دھماکہ کی زد میں آئی۔ ان کے داماد علی حسان مہمند اور دو سابق اہم کمانڈر مفتی حسن سواتی اور حافظ دولت خان اورکزئی بھی اُن کے ساتھ گاڑی میں موجود تھے۔
ٹی ٹی پی کے مرکزی ترجمان محمد خراسانی نے میڈیا کو بھیجے گئے ایک پیغام میں عمر خالد خراسانی کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔ خراسانی ٹی ٹی پی کے بانی ارکان میں سے تھے۔ نائن الیون کے بعد پاکستان میں اسلامی شدت پسندوں کی ریاست مخالف جنگ اور ٹی ٹی پی کو منظم کرنے میں ان کا اہم کردار سمجھا جاتا ہے۔
ان کا شمار ٹی ٹی پی کے طاقتور اور بااثر رہنماؤں میں ہوتا تھا جو ریاست مخالف سخت ترین موقف کا اظہار کرتے تھے۔
خراسانی تحریک طالبان پاکستان کے وہ واحد کمانڈر تھے جن کی موت یا گرفتاری میں مدد پر امریکی حکومت نے 30 لاکھ ڈالرز کا انعام مقرر کر رکھا تھا۔
اس سے قبل اس فہرست میں موجود تمام پاکستانی طالبان کمانڈر امریکی ڈرون حملوں میں مارے جا چکے ہیں جس میں بیت اللہ محسود، حکیم اللہ محسود، قاری حسین محسود اور مولانا فضل اللہ خراسانی وغیرہ شامل تھے۔
خراسانی بھی ماضی میں امریکی ڈرون حملوں سمیت کئی امریکی، افغان و پاکستانی فورسز کے زمینی حملوں کا نشانہ بنے مگر وہ ہر بار بچ نکلنے میں کامیاب رہتے تھے۔
اس میں سنہ 2015 میں افغان صوبہ ننگرھار کا پاکستان سے متصل سرحدی علاقے پرچاؤ میں امریکی و افغان فورسز کا ایک بڑا زمینی حملہ بھی شامل تھا جس میں خراسانی شدید زخمی ہوئے اور ان کے کئی اہم ساتھی مارے گئے تھے۔
یہ جاننے سے پہلے کے ان کی ہلاکت سے ریاست پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان جاری مذاکرات کیسے متاثر ہوں گے، ہمارے لیے یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ ریاست کے خلاف جنگ میں اُن کا کیا کردار رہا ہے۔
عمر خالد خراسانی کون تھے؟
‘ڈرامہ کوئین’ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا
قسطیں
مواد پر جائیں
تحریک طالبان پاکستان کے رسمی نشریاتی ذرائع سے نشر ہونے والے خراسانی کے مختلف انٹرویوز کے مطابق اُن کا اصل نام عبدالولی مہمند تھا جو 18 جولائی 1980کو پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع مہمند کی تحصیل صافی کے گاؤں قندھاروں میں پیدا ہوئے تھے۔
خراسانی کے اپنے مطابق انھوں نے اپنی عسکری زندگی کا آغاز سنہ 1996 میں جہادی تنظیم ‘حرکت المجاہدین’ سے کیا جس کے ذریعے افغانستان میں طالبان کے اقتدار پر قبضے کو مضبوط کرنے کی کوشش کی گئی، حرکت المجاہدین کے پلیٹ فارم سے وہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں انڈین افواج کے خلاف لڑائی میں بھی شریک ہوئے۔
خراسانی کے بقول 2003 کے بعد ریاست پاکستان کے خطے میں بدلتے حالات کے دباؤ اور کشمیر میں جہادی تنظیموں پر پابندی کی وجہ سے وہ افغانستان میں امریکی و اتحادی افواج کے خلاف پاکستانی اور افغان طالبان کے نئے منظم ہونے والے نیٹ ورکس کے ساتھ شمولیت کے لیے جنوبی وزیرستان منتقل ہوئے اور یہیں پر ان کی ملاقات و دوستی تحریک طالبان پاکستان کے مستقبل کے بانی بیت اللہ محسود سے ہوئی۔
ٹی ٹی پی سے قبل بیت اللہ محسود نے ‘بیت اللہ محسود کاروان’ کے نام سے اپنے آبائی علاقے جنوبی وزیرستان میں جنگجوؤں کا ایک نیٹ ورک بنایا تھا جس نے افغانستان میں امریکی و اتحادی افواج و افغان حکومت کے خلاف لڑنے کے ساتھ ساتھ جنوبی وزیرستان میں غیر ملکی جنگجوؤں کو پناہ فراہم کرنے اور پاکستانی سکیورٹی فورسز کے ساتھ لڑائیوں کا آغاز بھی کیا تھا۔
،تصویر کا ذریعہ JUA
خراسانی کے بقول جنوبی وزیرستان سے اپنے آبائی ضلع مہمند آ کر انھوں نے بھی شدت پسندوں کی عسکری تربیت کے کیمپ کھولے جن کا بظاہر مقصد افغانستان میں امریکی و اتحادی افواج اور افغان حکومت کے خلاف لڑائی میں افغان طالبان کی امداد تھا مگر دراصل وہ ریاست پاکستان کے نائن الیون کے بعد کی پالیسیوں کے خلاف ان پاکستانی جہادیوں کی خفیہ تحریک کا حصہ تھے جو بعد میں بیت اللہ محسود کی سربراہی میں تحریک طالبان پاکستان کی شکل اختیار کر گئی۔
جولائی 2007 میں اسلام آباد میں واقع لال مسجد اور اس سے متصل جامعہ حفصہ پر پاکستانی سکیورٹی فورسز کی کارروائی کے ردعمل میں خراسانی نے درجنوں جنگجوؤں سمیت مہمند ایجنسی میں واقع مشہور ترنگزئی صاحب مسجد پر قبضہ کر کے وہاں سے ریاست کے خلاف جنگ کا اعلان کیا۔
اسی سال دسمبر میں خراسانی باضابطہ طور تحریک طالبان پاکستان کے بانی رکن بنے۔ انھوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر مہمند اور دیگر قبائلی اور شہری علاقوں میں موجود جنگجوؤں کو بیت اللہ محسود کی قیادت میں تحریک طالبان پاکستان کے پلیٹ فارم سے ریاست کے خلاف جنگ کے لیے منظم کیا۔ خراسانی اب حرکت المجاہدین کی بجائے تحریک طالبان پاکستان کے مہمند ایجنسی کے لیے امیر مقرر ہوئے۔
خراسانی کا نام میڈیا میں پاکستانی طالبان کے ایک سخت گیر کمانڈر کے طور پر اس وقت ابھرا جب انھوں نے جولائی 2008 میں مہمند ایجنسی میں افغانستان میں برسرپیکار سلفی مکتبہ فکر کے اہم کمانڈر شاہ خالد کو ساتھیوں سمیت ایک لڑائی میں ہلاک کر کے مہمند ایجنسی میں افغان سرحد کے قریب واقع علاقوں میں ریاست کے حامی سمجھے جانے والے پاکستانی جنگجوؤں کا اثر و رسوخ ختم کر کے اپنا قبضہ قائم کیا۔
پاکستانی طالبان کی مرکزی قیادت میں خراسانی اور ان کے ساتھیوں کا اثر و رسوخ 2012 کے دوران حکیم اللہ محسود کی تنظیم کی سربراہی میں نمایاں ہو گیا۔
خراسانی تحریک کے اجرائی کمیشن کے امیر، ان کے دست راست ساتھی قاری شکیل تنظیم کے سیاسی کمیشن کے سربراہ اور دوسرے قریبی ساتھی احسان اللہ احسان تنظیم کے مرکزی ترجمان مقرر ہوئے۔
حکیم اللہ محسود کی نومبر 2013 میں امریکی ڈرون حملہ میں مارے جانے کے بعد تنظیم کے اندر قیادت اور دیگر مسائل خصوصاً تنظیم کے پاکستانی حکومت کے ساتھ مذاکرات پر شدید تحفظات کی وجہ سے خراسانی نے درجنوں کمانڈروں کے ساتھ اگست 2014 میں ٹی ٹی پی سے علیحدگی کا اعلان کر کے جماعت الاحرار کے نام سے الگ تنظیم قائم کی۔
جماعت الاحرار جلد ہی پاکستان کے اندر دہشت گردانہ حملوں کی تعداد و شدت کی وجہ سے مرکزی تحریک طالبان کو پیچھے چھوڑ گئی جو جماعت الاحرار کے علیحدگی، داعش خراسان میں اہم کمانڈروں کی شمولیت سمیت مزید ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے نہایت کمزور ہو گئی تھی۔
اسی دوران خراسانی امریکی حکومت کے مطلوب افراد کی فہرست میں شامل ہوئے اور ان کے قتل یا گرفتاری میں معاونت پر امریکی حکومت کی جانب سے بڑا انعام مقرر کیا گیا۔
خراسانی نے اگست 2020 میں اپنے ساتھیوں سمیت تحریک طالبان پاکستان میں دوبارہ شمولیت کا اعلان کیا۔ تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ مفتی نور ولی محسود نے ایک ویڈیو پیغام کا ذریعے خراسانی کی تنظیم میں دوبارہ شمولیت کا خیر مقدم کرتے ہوئے انھیں تحریک طالبان پاکستان کی تقویت اور ریاست کے خلاف جنگ کو منظم کرنے کے لیے انتہائی مفید قرار دیا تھا۔
خراسانی کے ساتھ ہلاک ہونے والے دیگر لوگ کون تھے؟
خراسانی کے ساتھ ان کے داماد اور قریبی ساتھی علی حسان مہمند کے علاوہ تحریک طالبان پاکستان کے دو سابقہ اہم کمانڈر مفتی حسن سواتی اور حافظ دولت خان اورکزئی مارے گئے ہیں۔
سواتی اور اورکزئی تحریک طالبان پاکستان کے ان پہلے چھ کمانڈروں میں سے تھے جنھوں نے اکتوبر 2014 میں اس وقت کے مرکزی ترجمان شاہد اللہ شاہد کی سربراہی میں تحریک چھوڑ کر نئے جنم لینے والی عالمی شدت پسند تنظیم نام نہاد دولت اسلامیہ یا داعش کے سربراہ ابوبکر بغدادی کی خودساختہ خلافت کی بیعت کا اعلان کیا تھا۔ انھوں نے پاکستان و افغانستان خطے میں داعش کی بنیاد رکھی جو اب داعش خراسان کے نام سے جانی جاتی ہے۔
داعش خراسان کے قیام پر جنوری 2015 میں نشر ہونے والی پہلی ویڈیو کے مطابق اس میں شمولیت کے وقت مفتی سواتی تحریک طالبان پاکستان میں خیبر پختوانخوا کے صوبائی دارالحکومت پشاور اور حافظ دولت کرم ایجنسی کے سربراہ تھے۔
مفتی نور ولی محسود نے 2017 میں شائع ہونے والی تحریک طالبان پاکستان کی تاریخ پر لکھی گئی ایک مفصل کتاب میں سواتی کو شدید تنقید کا نشانہ بنا کر انھیں ٹی ٹی پی کے اندر 2012 اور 2014 کے درمیان جاری اندرونی مشکلات کا اہم کردار قرار دیا تھا۔
داعش خراسان کے قیام کے کچھ عرصہ بعد ہی ان دونوں کمانڈروں نے داعش سے علیحدگی اختیار کی تھی مگر ان کے تحریک طالبان پاکستان میں دوبارہ شمولیت کے کوئی شواہد نہیں ہیں۔
کابل میں موجود افغان طالبان کے حکومتی ذرائع نے نہ نام بتانے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ یہ دونوں کمانڈر اب بھی داعش کے ساتھ قریبی تعلق کی وجہ سے افغان طالبان کو مطلوب تھے۔
کیا اس سے پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات متاثر ہوں گے؟
خراسانی کا تحریک طالبان پاکستان اور حکومت کے درمیان جاری مذاکرات کے دوران یوں پُراسرار ہلاک ہونا یقیناً ان مذاکرات کے مستقبل پر سوالیہ نشان ہے۔
ٹی ٹی پی اور حکومت کے درمیان گذشتہ سال اکتوبر میں امن مذاکرات شروع ہوئے جو گذشتہ چند ماہ کی دوطرفہ مسلسل جنگ بندی اور ملاقاتوں کے تسلسل کی وجہ سے ایک فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں۔
پچھلے سال نومبر میں بی بی سی کو دیے انٹرویو میں خراسانی نے راقم الحروف کے استفسار پر مذاکرات کے حوالے سے حکومت کی سنجیدگی پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
خراسانی کا اہم اعتراض حکومت کی جانب سے قبول کیے گئے قیدیوں کی رہائی کی شرط پر تعطل کی وجہ سے تھا مگر اس کے کچھ عرصہ بعد تحریک طالبان پاکستان کے سرکردہ کمانڈروں سمیت درجنوں قیدی رہا کیے گئے۔ اس سے تحریک طالبان کی طرف سے ان مذاکرات میں گرم جوشی دکھائی گئی۔
وہ ان مذاکرات کے لیے تحریک طالبان کے نمائندہ وفد کا حصہ بھی تھے۔ وہ کابل میں ہونے والے دونوں اطراف کے درمیان ملاقاتوں میں شریک رہے۔
ماضی میں بھی جب سنہ 2013 میں حکومت اور پاکستانی طالبان کے درمیان اسی قسم کے امن مذاکرات میں پیشرفت ہوئی تو اس وقت ایک امریکی ڈرون میں حکیم اللہ محسود کے مارے جانے سے ان مذاکرات کا سلسلہ ختم ہوا کیونکہ تحریک طالبان پاکستان نے پاکستانی فوج پر اس ڈرون حملے کی معاونت کا الزام لگایا تھا۔
اگرچہ پاکستانی حکومت نے اب تک خراسانی کے مارے جانے کے حوالہ سے کوئی بیان نہیں دیا مگر ایک عرصے سے افغانستان میں ایسی کارروائی میں حکومت کو مطلوب سرکردہ کمانڈر نشانہ بنتے رہے ہیں۔ اس پر ان کے ساتھی پاکستانی سکیورٹی ایجنسیوں کو موردالزام ٹھراتے ہیں۔
اس سلسلے میں پیر کو ہی علی الصبح پاکستان سے متصل شمال مشرقی افغانستان کے صوبہ کنڑ کے دوردارز چوگام علاقے میں تحریک طالبان پاکستان کے ملٹری کمیشن کے رکن کمانڈر مولوی عبدالرشید عقابی ایک بارودی بم دھماکے کا نشانہ بنے۔
ماضی میں ان ہدفی کارروائیوں سے مذاکرات میں تعطل آتا تھا اور اب بھی پکتیکا میں ایسے واقعات سے یہ سلسلہ دوبارہ شروع ہوا ہے۔
اس سال کے شروع میں پاکستانی طالبان کے مرکزی ترجمان مفتی خالد بلتی کو ایک کارروائی میں ہلاک کیا گیا تھا۔
اس کے بعد اسی سال ہی جنگ بندی سے قبل تحریک طالبان پاکستان کے سینئیر رہنما مولانا فقیر محمد اور دو سینئیر کمانڈروں مفتی بورجان اور شاہد عمر کو مختلف حملوں میں ڈرون، بمبار طیاروں اور بارودی بم دھماکوں سے نشانہ بنایا گیا مگر وہ ان حملوں میں محفوظ رہے جبکہ ان کے دیگر ساتھی قتل یا زخمی ہوئے۔
لہذا اگر خراسانی کے ساتھیوں کی جانب سے ان کے قتل کا الزام پاکستانی سکیورٹی اداروں پر ڈالا جاتا ہے تو اس صورتحال میں تحریک طالبان پاکستان کو حکومت کے ساتھ مذاکرات جاری رکھنا تحریک کے اندرونی خلفشار اور تقسیم کا سبب بن سکتا ہے۔
Originally published at https://www.bbc.com on August 8, 2022.