لڑکیوں کی تعلیم کے معاملے پر افغان طالبان میں پھوٹ، ‘قیادت پر دباؤ بڑھ رہا ہے
’افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کے خلاف عالمی برادری کے ساتھ ساتھ اب خود افغان طالبان کے اندر سے بھی آوازیں بلند ہونے لگی ہیں۔ حال ہی میں ایک حکومتی تقریب میں طالبان کے ایک سینئر رہنما نے کھل کر لڑکیوں کی تعلیم کے حق میں آواز اٹھائی جس سے بعض مبصرین کے مطابق یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس معاملے پر خود طالبان کی صفوں میں موجود اختلافات اب شدت اختیار کر رہے ہیں۔
گزشتہ ہفتے عالمی یومِ سیاحت کی مناسبت سے کابل میں ہونے والی ایک تقریب سے کئی سینئر طالبان رہنماؤں، وزرا اور دیگر اہم شخصیات نے اظہارِ خیال کیا تھا۔ لیکن تقریب کے دوران طالبان حکومت کے وزیر امر بالمعروف شیخ محمد خالد حنفی اور نائب وزیرِ خارجہ شیر محمد عباس ستنکزئی کے درمیان لڑکیوں کی تعلیم کے معاملے پر ہونے والی نوک جھونک کئی حلقوں کے لیے حیران کن تھی۔
تقریب کے دوران ستنکزئی نے اپنی تقریر کا رُخ لڑکیوں کی تعلیم کی جانب موڑتے ہوئے شدید برہم لہجے میں کہا کہ اس پر پابندی اسلامی احکام کے منافی اور افغان عوام کے ساتھ طالبان کی زیادتی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ مذہب میں مرد کی طرح عورت پر بھی تعلیم یکساں فرض ہے اور اس اہم فریضے پر افغانستان اور اُمتِ مسلمہ کے تمام مذہبی رہنما متفق ہیں۔ لہذٰا کوئی اس فرض کی نفی نہیں کر سکتا۔ اُنہوں نے طالبان رہنماؤں کو چیلنج کیا کہ اگر کوئی اس پر متضاد رائے رکھتا ہے تو کھل کر سامنے آئے اور اپنے دلائل پیش کرے۔
ستنکزئی نے طالبان قیادت کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت کی بقا و استحکام کے لیے عوام کی حمایت اشد ضروری ہے۔ ورنہ تاریخ گواہ ہے کہ افغانستان میں ماضی کی حکومتیں تمام تر قوت کے باوجود عوام کی مخالفت و ناراضی کی وجہ سے اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکیں۔
تقریب کے دوران ستنکزئی کا یہ بھی کہنا تھا کہ لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کی وجہ سے افغان قوم اور ملک کے نئے حکمرانوں کے درمیان فاصلے بڑھتے جارہے ہیں اور اس معاملے میں مزید تاخیر قوم کو طالبان کے خلاف لاکھڑا کر ے گی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ افغان طالبان کی حکومت ایک نازک مرحلے میں ہے اور افغان عوام کے علاوہ عالمی برادری کی توجہ بھی طالبان کی پالیسیوں پر ہے۔ ایسے میں ان کے بقول لڑکیوں کی تعلیم پر اس “غیر اسلامی پابندی” پر سب کو شدید تحفظات ہیں۔
شیر عباس ستنکزئی کا شمار افغان طالبان کے اہم رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ وہ نوے کی دہائی میں افغان طالبان کے قیام سے لے کر اب تک اس تحریک کے سیاسی اور سفارتی اُمور کے اہم ذمے دار رہے ہیں۔ ستنکزئی دوحہ میں کئی سال جاری رہنے والے امریکہ اور طالبان کے مذاکرات کے دوران افغان طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے اہم رُکن تھے۔ اپنی شعلہ بیانی اور دو ٹوک مؤقف کی وجہ سے اُنہیں طالبان حلقوں میں خاصی مقبولیت بھی حاصل رہی ہے۔
مذکورہ تقریب کے دوران ستنکزئی کی شعلہ بیانی اور لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے دو ٹوک مؤقف پر وہاں موجود بعض طالبان ارکان نے نہ صرف اُنہیں سراہا بلکہ تقریب کے دوران ہی لڑکیوں کی تعلیم کی حمایت میں اُن کی تقریر کے کچھ حصے سوشل میڈیا پر شیئر بھی کیے گئے۔
‘اگر کسی کو اعتراض ہے تو قیادت سے بات کرے’
ستنکزئی کے پرجوش خطاب کے بعد طالبان حکومت کے وزیر امر بالمعروف شیخ محمد خالد حنفی نے اپنی باری پر ستنکزئی کا نام لیے بغیر اُنہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے ستنکزئی کے مؤقف کو مذہبی لحاظ سے غلط قرار دیا۔
حنفی نے تند و تیز لہجے میں کی گئی اپنی تقریر میں کہا کہ ہر مجلس میں بعض طالبان رہنمالڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کے مسئلے کو غیر ضروری طور پر زیرِ بحث لے آتے ہیں۔ اگر کسی طالبان رُکن کو اس مسئلے پر اعتراض ہے تو وہ اس معاملے کو میڈیا میں اچھالنے کے بجائے قیادت کے سامنے اپنے اعتراضات کا اظہار کرے۔
طالبان حکومت کے وزیر نے ستنکزئی کی جانب سے لڑکیوں کی تعلیم کو فرض قرار دینے کی نفی کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حالات میں پردے کی شرائط پوری نہ ہونے کی وجہ سے لڑکیوں کی تعلیم کا سلسلہ شروع کرنا گناہ کا سبب بنے گا۔
حنفی کا کہنا تھا کہ مذہبی تعلیمات کے مطابق علم کی روحانی و ہنری دو اقسام ہیں جس میں فقط روحانی علم کا حصول فرض ہے جب کہ جدید تعلیم ہنری علم کے زمرے میں آتی ہے، جو ان کے بقول مرد یا عورت کسی پر فرض نہیں ہے۔
اپنے خطاب میں خالد حنفی نے اعتراف کیا کہ لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی طالبان کے امیر ملا ہبت اللہ کی جانب سے عائد کی گئی ہےاور امیر کے حکم کی اطاعت طالبان کے تمام اراکین پر فرض ہے۔
لڑکیوں کی تعلیم پر طالبان کی پابندی: مسئلہ کیا ہے؟
گزشتہ برس اگست میں افغانستان پر قبضے کے بعد طالبان نے غیر متوقع طور پر لڑکیوں کے سیکنڈری اسکولز کے علاوہ تمام تعلیمی ادارے کھولنے کا اعلان کیا تھا۔
گرلز سیکنڈری اسکولز نہ کھولنے کے اعلان کو عالمی اداروں نے طالبان کی جانب سے دوحہ مذاکرات کے دوران عالمی برادری کے ساتھ کیے گئے وعدوں کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔
امریکہ کے ساتھ امن مذاکرات کے دوران طالبان نے کئی بار یہ عندیہ دیا تھا کہ وہ اپنے پہلے دورِ حکومت کے دوران اُٹھائے گئے سخت گیر اقدامات دوبارہ نافذ نہیں کریں گے۔ خیال رہے کہ افغانستان میں 1996 سے 2001 تک کے طالبان کے دورِ حکومت میں بھی لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی عائد تھی۔
طالبان اس عرصے کے دوران لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کا یہ عذر پیش کرتے تھے کہ ملک خانہ جنگی کا شکار ہے اور ان نامساعد حالات میں وقتی طور پر لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی برقرار رکھنا ناگزیر ہے۔ تاہم ماہرین کے مطابق اب افغانستان میں خانہ جنگی جیسی کوئی صورتِ حال نہیں ہے، لہذٰا اب طالبان کے پاس یہ پابندی دوبارہ لگانے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
‘ستنکزئی شروع دن سے ہی اس پابندی کے مخالف ہیں’
افغان صحافی بلال سروری کے مطابق شیر عباس ستنکزئی چوں کہ لڑکیوں کی تعلیم کے حامی ہیں، لہذٰا دوحہ مذاکرات کے دوران بھی وہ امریکی حکام اور عالمی برادری کو یقین دہانی کراتے رہے تھے کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم پر کوئی پابندی نہیں ہو گی۔
بلال سروری کے بقول ستنکزئی پہلے دن سے اس پابندی کے مخالف رہے ہیں اور ان کی یہ کوشش رہی ہے کہ اسے ختم کیا جائے۔
طالبان حکومت اس پابندی کی یہ تاویل پیش کرتی رہی ہے کہ جب تک طالبان حکومت کی وضع کردہ پردے کی شرائط اور لڑکے اور لڑکیوں کا میل جول روکنے کے لیے الگ تعلیمی نظام تشکیل نہیں دے دیا جاتا، اس وقت تک یہ پابندی برقرار رہے گی۔
رواں برس مارچ میں افغانستان میں نئے تعلیمی سال کے آغاز پر طالبان نے 23 مارچ سے تمام عمر کی لڑکیوں کے لیے تعلیمی ادارے کھولنے کا اعلان کیا تھا اور یہ نوید سنائی تھی کہ 23 مارچ سے قبل تمام شرائط پوری کر لی جائیں گی۔
لیکن اسکول کھلنے سے ایک رات قبل قندھار میں موجود طالبان کے امیر ملا ہبت اللہ کی جانب سے کابل میں وزارتِ تعلیم کو لڑکیوں کے سیکنڈری اسکول نہ کھولنے کا حکم نامہ موصول ہوا تھا۔
اگلے روز طالبان حکومت کی وزارتِ تعلیم نے وضاحت پر مبنی ایک اعلامیہ جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ یہ پابندی وزارت کی جانب سے نہیں بلکہ اعلٰی قیادت کی طرف سے عائد کی گئی ہے۔
سروری کہتے ہیں کہ ان کے لیے سب سے تکلیف دہ مناظر وہ تھے جب صبح سویرے کئی ماہ کے تعطل کے بعد لڑکیاں خوشی خوشی اسکول پہنچ گئیں اور کچھ ہی دیر بعد اُنہیں گھروں کو جانے کی ہدایت کر دی گئی۔
طالبان نواز مذہبی اور عوامی حلقے بھی پابندی کے ناقد
ایک جانب افغان عوام اور عالمی برادری نے اس حکم نامے پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا تھا تو وہیں اس پابندی کے مخالف طالبان نواز حلقوں نے بھی اس پر خاموش رہنے کے بجائے کھل کر اپنی قیادت پر تنقید کی تھی۔ ان میں بیرونِ ملک موجود طالبان کے حامی افغان شہری بھی شامل تھے جو طالبان کے اقتدار سے قبل اور اس دوران سوشل میڈیا پر ان کی بھرپور حمایت کرتے رہے تھے۔
اس فیصلے کے ناقدین میں طالبان کی حمایت کرنے والے سنگر پیکار، حفیظ پیرزادہ، ولید کاکڑ اور ڈاکٹر ہاتف مختار جیسے کئی نمایاں نام شامل تھے۔ اس کے علاوہ افغانستان میں موجود طالبان کے بعض رہنما اور حکومتی اہلکار بھی سوشل میڈیا پر اشاروں کنایوں میں اس پابندی پر غم وغصے کا اظہار کرتے رہے ہیں۔
طالبان کے حامی کئی مذہبی رہنماؤں نے بھی اس پابندی کو غیر اسلامی قرار دے کر اس پر شدید تنقید کی تھی اور لڑکیوں کے اسکولوں کو کسی عمر کی تفریق کے بغیر غیر مشروط طور پر کھولنے کا مطالبہ کیا تھا۔
ان میں شیخ رحیم اللہ حقانی جیسے مذہبی رہنما بھی شامل تھے جو اپنی تندو تیز تقاریر کی وجہ سے طالبان حلقوں میں مقبول تھے۔ شیخ حقانی داعش اور سلفی مکتبِ فکر پر کھل کر تنقید کرتے تھے اور رواں برس اگست میں کابل میں مبینہ طور پر داعش کے ایک خود کش حملے میں مارے گئے تھے۔
کابل میں موجود طالبان کے اندرونی ذرائع نے نام نہ بتانے کی شرط پر مصنف کو بتایا کہ حقانی سمیت لڑکیوں کی تعلیم کے لیے آواز اٹھانے والے کئی نمایاں افراد کو “باغی” قرار دے کر انہیں ہر قسم کی تنقید سے باز رکھنے کے لیے سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دی گئی تھیں۔ لیکن اس کے باوجود طالبان حلقوں کے اندر اس فیصلے پر احتجاج کسی نہ کسی طور چلا آ رہا ہے۔
اس پابندی کے اصل کردار کون ہیں؟
ذرائع کے مطابق طالبان کے کئی رہنما، لڑکیوں کی تعلیم کے حق میں ہیں۔ لیکن طالبان سربراہ ملا ہبت اللہ سمیت دیگر پانچ اہم مذہبی رہنما اس پابندی کو برقرار رکھنے کے ذمے دار ہیں جن میں وزیرِ حج و اوقاف مولوی نور محمد ثاقب، چیف جسٹس شیخ عبدالحکیم حقانی، وزیرِاعظم مولوی محمد حسن اخوند اور شیخ فریدالدین محمود کے نام شامل ہیں۔
ذرائع کے مطابق طالبان کابینہ کے بیش تر ارکان عالمی اداروں اور ہمدرد ممالک سے سیاسی اور اقتصادی معاملات میں پیش رفت کی راہ میں اس پابندی کو رکاوٹ قرار دیتے ہیں۔ لیکن وہ اکثریت میں ہونے کے باوجود طالبان شوریٰ کے اجلاسوں میں مذہبی قیادت کی اس معاملے میں “ہٹ دھرمی” کی وجہ سے پابندی کو ختم کرانے میں ناکام رہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق عالمی برادری کے تحفظات کے پیشِ نظر طالبان شوریٰ کے ایک حالیہ اجلاس میں وزیرِ داخلہ سراج الدین حقانی اور وزیرِ معدنیات و پیٹرولیم شیخ شہاب الدین دلاور سمیت بعض وزرا نے اس پابندی کو ہٹانے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔
شیخ دلاور کو افغان طالبان کے اندرونی حلقوں اور ملک بھر میں ایک بااثر مذہبی رہنما سمجھا جاتا ہے۔ ذرائع کے مطابق اُنہوں نے اس پابندی کے اسلامی اُصولوں کے خلاف ہونے پر شوریٰ میں کافی دلائل بھی دیے تھے مگر پھر بھی اس اجلاس میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی ختم کرنے کے معاملے پر کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا تھا۔
شیخ دلاور بھی ستنکزئی کی طرح دوحہ میں طالبان مذاکراتی ٹیم کے اہم رُکن رہے ہیں جنہوں نے امریکہ اور عالمی برادری کو لڑکیوں کی تعلیم اور قومی دھارے میں خواتین کی نمائندگی کی یقین دہانیاں کرائی تھیں۔
‘طالبان کے اندر اس معاملے پر بحث اچھا شگون ہے’
افغان طالبان کے معاملات پر گہری نظر رکھنے والے افغان صحافی سمیع یوسفزئی کہتے ہیں کہ ستنکزئی کے بیان اور اس پر حنفی کی تنقید نے طالبان کی صفوں میں لڑکیوں کی تعلیم کے معاملے پر بات چیت کی راہ ہموار کی ہے، جو ایک اچھا شگون ہے۔
سمیع یوسفزئی کے بقول عالمی دباؤ اور طالبان وزرا اور مذہبی رہنماؤں کی لڑکیوں کی تعلیم کے حق میں آوازوں کے باعث ان چند طالبان رہنماؤں پر دباؤ بڑھ رہا ہے جو ان کے بقول تعداد میں بہت کم ہیں۔
سمیع یوسفزئی سمجھتے ہیں کہ وہ وقت دُور نہیں جب افغانستان میں لڑکیاں ایک بار پھر اسکولوں کا رُخ کریں گی اور اُنہیں بغیر کسی شرط کے تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت مل جائے گی۔
وہ کہتے ہیں کہ ستنکزئی کی جانب سے چھیڑی گئی یہ بحث اور اس کے جواب میں خالد حنفی کی بے جا تنقید کی آڑ لے کر طالبان کی صفوں میں موجود وہ رہنما بھی جدید تعلیم کے حق میں بات کر رہے ہیں، جو پہلے خاموش تھے۔
اُن کے بقول اس سلسلے میں ایک اہم مثال طالبان کے مرکزی انسپکٹر جنرل اور دوحہ سیاسی دفتر کے رکن شیخ سید رسول کی ہے جنہوں نے حنفی کی تقریر کے جواب میں 11 منٹ کا آڈیو پیغام جاری کر کے اُن کے دعوؤں کو جہالت پر مبنی اور اسلامی تعلیمات کے منافی قرار دیا ہے۔
شیخ رسول نے اپنے آڈیو پیغام میں کہا ہے کہ “اسلام میں مسلمانوں پر کفار کے مقابلے میں قوت کی تیاری فرض کی گئی ہے اور چوں کہ کفار کا سائنس و ٹیکنالوجی کی بدولت دنیا پر قبضہ ہے۔ اس لیے مسلمان مرد وعورت پر جدید تعلیم کا حصول تب تک فرض ہے جب تک کفار کے بجائے اسلام کی حاکمیت دنیا پر قائم نہیں ہو جاتی۔”
خالد حنفی کی تقریر پر تنقید کرنے والوں میں افغانستان کے نام ور شاعر اور طالبان کے دیرینہ ہمدرد حفیظ الدین پیرزادہ بھی شامل ہیں۔
پیرزادہ نے حنفی پر طنز کرتے ہوئے لکھا ہے کہ “جنابِ شیخ کو لڑکیوں کی جدید تعلیم کی اہمیت کا اس وقت ادراک ہو گا جب وہ بھی ایک دن ان ہزاروں افغان مریضوں کے ساتھ لمبی قطار میں پاکستان کی سرحد پر کھڑے ہوں گے جو افغانستان میں جدید علاج کی سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان جانے پر مجبور ہیں۔”
مبصرین کا کہنا ہے کہ طالبان کے اندرونی حلقوں میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کے معاملے میں بڑھتے ہوئے اختلافات کے بعد یہ اُمید کی جا سکتی ہے کہ طالبان اس معاملے پر جلد ہی کوئی حتمی فیصلہ کر لیں گے۔ بصورتِ دیگر عالمی برادری اور افغانستان کے اندر عوامی سطح پر اُن پر دباؤ بڑھتا رہے گا۔
Originally published at https://d3ddu6yqquffjd.cloudfront.net on October 5, 2022.