معروف سلفی عالم مولوی ولی ثاقب کے قتل کے محرکات کیا ہو سکتے ہیں؟ —

Abdul Sayed
9 min readJul 22, 2022

--

BBC News اردو

  • عبدالسید
  • محقق و تجزیہ کار

،تصویر کا ذریعہ Facebook/Naranj Bagh Seminary

افغانستان کے دارالحکومت کابل میں اہلحدیث یا سلفی مکتبہ فکر کے نامور مذہبی رہنما و مبلغ مولوی سردار ولی ثاقب کو 13 جولائی کو پراسرار طریقے سے اُن کے گھر میں ذبح کر کے قتل کر دیا گیا۔

مولوی ثاقب پر ماضی میں طالبان مخالف عالمی شدت پسند تنظیم نام نہاد دولت اسلامیہ کی خراسان شاخ (داعش افغانستان) کی حمایت کے الزامات لگتے رہے ہیں مگر ایک عرصہ روپوشی کے بعد انھوں نے گذشتہ سال اگست میں طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعد اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایک سرکاری تقریب میں طالبان حکومت کی حمایت اور بیعت کا اعلان کیا تھا۔

اگرچہ طالبان حکومت مولوی ثاقب کے قتل کا ذمہ دار داعش خراسان کو ٹھہرا رہی ہے مگر دوسری طرف طالبان کی صفوں میں موجود ایسے سلفی مکتبہ فکر مخالف عناصر کی جانب بھی انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں جو افغانستان میں سلفیت کے شدید مخالف ہیں۔

ابوعبیدہ متوکل پر بھی ماضی میں داعش خراسان سے تعلق کا الزام تھا مگر انھوں نے بھی سوشل میڈیا کے ذریعے ایک ویڈیو پیغام میں طالبان کی حکومت کے بیعت و حمایت کا اعلان کیا تھا۔

اگرچہ طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے متوکل کے قتل میں اپنی حکومت یا تنظیم کے ملوث ہونے کی تردید کر کے تحقیقات کا اعلان کیا تھا مگر آج تک اس قتل میں ملوث افراد کا پتا نہیں چل سکا۔

اس مضمون کا مقصد مولوی ثاقب کے قتل کے پس پردہ عوامل اور افغانستان میں طالبان اور داعش کی مابین جاری جنگ کا حوالہ لینا ہے۔

ولی ثاقب کا قتل کیسے ہوا؟

کابل پولیس کے ترجمان خالد زدران نے بی بی سی اُردو کو بتایا کہ ابتدائی پولیس رپورٹ کے مطابق مولوی سردار ولی ثاقب کو بدھ (13 جولائی) کی دوپہر کابل شہر میں واقع ان کے گھر آئے نامعلوم مہمان نے چھریوں کے پے درپے وار کر کے قتل کیا۔

پولیس رپورٹ میں اُس رہائشی علاقے کے چوکیدار اور دیگر عینی شاہدین کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ دن 12 بجے کے قریب مولوی ثاقب ایک دراز قد نوجوان کو اپنے ساتھ گھر لے کر گئے جس کا چہرہ ماسک سے ڈھکا ہوا تھا، مگر کچھ دیر بعد یہی نامعلوم نوجوان گھر سے اکیلے نکلتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔

مولوی ثاقب کے قریبی ذرائع کے مطابق مولوی ثاقب کی رہائش گاہ کو اُن کے چند خاص ساتھیوں اور قریبی رشتہ داروں کے علاوہ سکیورٹی وجوہات کی وجہ سے خفیہ رکھا گیا تھا۔

مولوی ثاقب کے قریبی ساتھی قاری سلمان کے مطابق مولوی ثاقب نے وقوعہ کے روز ایک مہمان سے ملاقات کے بعد اُن کے گھر آنے کا وعدہ کیا تھا مگر دوپہر کے بعد سے مولوی ثاقب کا موبائل فون مسلسل بند جانے کی وجہ سے جب وہ شام آٹھ بجے کے قریب ان کے گھر پہنچے تو وہ خون میں لت پت پڑے تھے۔

افغانستان میں سلفیوں کا گڑھ سمجھے جانے والے شمال مشرقی صوبہ کنڑ کے مرکزی شہر اسد آباد میں مولوی ثاقب کی نماز جنازہ کے ایک بڑے اجتماع سے جمعرات کے روز ممتاز سلفی رہنما اور مولوی ثاقب کے ساتھی شیخ خوشحال نے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ ‘نامعلوم مہمان قاتل نے سخت ہاتھا پائی کے بعد مولوی ثاقب کو چھری کے درجنوں وار سے ہلاک کرنے کے بعد ان کا گلا کاٹا۔’

پولیس رپورٹ کے مطابق قاتل نے گھر سے نکلنے سے قبل اپنے خون آلود کپڑے مولوی ثاقب کے گھر ہی میں تبدیل کیے تاکہ باہر کسی کو شک نہ ہو۔

جنازے میں شرکت کرنے والے ایک مقامی شہری نے بی بی سی کو بتایا کہ جنازے کی سکیورٹی کے حوالے سے افغان طالبان نے سخت حفاظتی انتظامات کر رکھے تھے۔ جلال آباد میں جنازے کے اجتماع سے سلفی مکتبہ فکر کے اہم رہنماؤں سمیت طالبان کی صوبائی حکومت اور کابل سے آئے ہوئے حکومتی نمائندوں نے بھی خطاب کیا، جسے سوشل میڈیا سے براہ راست نشر کیا گیا۔

طالبان حکومت کے نمائندہ مولوی محمد امین نے اس قتل کو افغان دشمن عناصر کی جانب سے ملک میں مذہبی تفرقہ ڈالنے کی کوشش قرار دے کر شیخ سردار والی کے پیروکاروں اور سلفی مکتبہ فکر سے پرامن رہ کر اس سازش کو ناکام بنانے کی درخواست کی۔

افغانستان کے علاوہ پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں بھی مولوی ثاقب کا غائبانہ نمازہ جنازہ گذشتہ جمعرات کو ادا کیا گیا، جس میں پاکستان و افغانستان کے سلفی مکتبہ فکر کے رہنماوں سمیت ہزاروں افراد نے شرکت کی۔

مولوی سردار ولی ثاقب کے قریبی ساتھی مولوی احمد شاہ نے بتایا کہ 41 برس کے مولوی ثاقب کا تعلق افغانستان کے مشرقی صوبہ ننگرہار کے ضلع خوگیانی سے تھا اور انھوں نے بیشتر تعلیم پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا میں واقع اہلسنت کے حنفی مسلک کے دیوبند مکتبہ فکر کے مدارس سے حاصل کی تھی اور سنہ 2001 میں تعلیم سے فراغت کے بعد چند برس پشاور ہی میں تدریس جاری رکھی تھی۔

اس کے اساتذہ میں سرفہرست دیوبندی مکتبہ فکر کے ممتاز مذہبی عالم مولوی حسن جان مدنی اور شیخ محمد ادریس شامل ہیں۔ اس کے ساتھ وہ پشاور ہی میں سلفی مکتبہ فکر کے اہم مذہبی عالم شیخ عبدالسلام رستمی کے بھی کئی سال شاگرد رہے۔

مولوی احمد شاہ اور مولوی ثاقب نہ صرف ایک ساتھ زیر تعلیم رہے بلکہ ان دونوں کا گذشتہ بیس سالہ جمہوری نظام حکومت کے دوران افغانستان میں سلفی مکتبہ فکر کی ترویج و تبلیغ میں اہم کردار رہا اور اسی وجہ سے یہ دونوں موجودہ دور میں افغانستان میں اس مکتبہ فکر کے سب سے بااثر مذہبی رہنما سمجھے جاتے ہیں۔

مولوی ولی ثاقب نے سنہ 2006 میں ننگرہار کے مرکزی شہر جلال آباد کے علاقہ نارنج باغ میں مولوی احمد شاہ کے قائم کردہ سلفی مسلک کے مدرسہ میں تدریس شروع کی جو ان دونوں کی کوششوں سے جلد ہی دارالعلوم نارجن باغ کے نام سے افغانستان میں سلفی مکتبہ فکر کی سب سے بڑی مذہبی تعلیم گاہ بن گیا جہاں سے ہر سال سینکڑوں طلبا و طالبات فارغ التحصیل ہوتے رہے۔

مولوی ثاقب پشتو زبان میں اپنے منفرد طرز بیان کی وجہ سے جلد ہی افغانستان سمیت پاکستان کے سلفی مکتبہ فکر کے مذہبی مبلغوں میں نمایاں مقام حاصل کر گئے۔ سوشل میڈیا کے استعمال کی وجہ سے ان دونوں ممالک کے علاوہ مشرق وسطی اور دیگر بیرونی ممالک میں مقیم پشتون کمیونٹی کے خصوصاً سلفی مسلک کے پیروکاروں میں ان کے بیانات کافی مقبول تھے۔

مولوی ثاقب کے قتل کے ممکنہ محرکات؟

طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعد ملک کے سلفی مکتبہ فکر کو سخت پابندیوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ملک کے طول و عرض میں سلفی مکتبہ فکر کی درجنوں مساجد اور مدارس پر داعش کے ساتھ تعلق کے الزام میں پابندی لگائی گئی۔

سلفی مکتبہ فکر کے سرکردہ رہنماؤں کو اسی الزام کے تحت گرفتار کیا گیا اور بیشتر روپوش ہو گئے۔ ان افراد میں مولوی ثاقب بھی تھے جو کابل میں اپنے ساتھی مولوی متوکل کے اغوا کے بعد روپوش ہو گئے تھے۔

اس دوران طالبان جنگجوؤں نے مولوی ثاقب کو گرفتار کرنے کے لیے ان کے مدرسے پر کئی دفعہ چھاپہ مارا مگر وہ ان کے ہاتھ نہ لگ سکے۔ ان کے مسجد و مدرسہ پر پنج وقت نماز کی ادائیگی کے علاوہ پابندی لگائی گئی جس میں طالبان کے خوف سے محض گنتی کے چند افراد شرکت کرتے تھے۔

افغانستان میں سلفی مکتبہ فکر پر حالات تب مزید سخت ہوئے جب داعش نے طالبان کے خلاف شدید حملے شروع کیے۔

اس دوران سال کے آخر تک داعش کی مرکزی تنظیم کے رسمی ہفتہ وار مجلہ ‘النبا’ نے افغانستان میں اپنی تنظیم کے 119 حملوں کا دعویٰ کیا جس میں آدھے سے زیادہ فقط جلال آباد شہر میں کیے گئے جو افغانستان میں داعش کا سب سے زیادہ اثر و نفوذ والا شہر رہا ہے۔

اس کے ردعمل میں طالبان نے سلفی مکتبہ فکر کے مذہبی افراد اور خصوصاً نوجوانوں کو داعش سے تعلق کے الزامات میں تشدد کے ذریعے قتل کے بعد، بعض واقعات، اُن کی لاشوں کو درختوں سے لٹکایا یا دریا برد کیا۔

انسانی حقوق کے عالمی ادارے ہیومن رائٹس واچ کے اس مہینے کی شائع کردہ رپورٹ کے مطابق طالبان فورسز نے فقط جلال آباد شہر کے قریب درونٹہ نہر میں درجنوں سلفی نوجوانوں کو داعش کے ساتھ تعلق کے الزام میں قتل کر کے اس کی لاشیں ڈبو دی تھیں، جن میں سے 100 کے قریب لاشیں مقامی آبادی نے پچھلے سال نومبر میں نہر کا پانی خشک ہونے کے بعد نکالیں۔

جب داعش اور طالبان کی لڑائی شدت اختیار کر گئی تو اسی دوران (گذشتہ سال اکتوبر میں) طالبان کی انٹیلیجنس اور امر بالمعروف وزارتوں کی منعقدہ ایک اعلی سطح حکومتی تقریب میں طالبان نے سلفی مکتبہ فکر کے بااثر رہنماؤں کو جمع کر کے ان کے لیے ملک میں مذہبی آزادی اور سکیورٹی کی یقین دہانی کا اعلان کیا۔

طالبان کے اس اقدام کا بظاہر مقصد سلفی مکتبہ فکر کے افراد کو طالبان کے خلاف داعش کی جنگ کا حصہ بننے سے روکنا تھا۔ اس وفد میں ملک کے کئی نامور سلفی رہنما شامل تھے جس کی قیادت مولوی احمد شاہ اور مولوی ثاقب کر رہے تھے۔

طالبان کی نشر کردہ اس تقریب کی ویڈیو کے مطابق مولوی احمد شاہ نے اس وفد کی نمائندگی میں بات کرتے ہوئے داعش سے مکمل برات کا اعلان کر کے اُن کو ‘باغی’ قرار دیا اور ساتھ طالبان سے استدعا کی کہ اُن کو اس جنگ میں نہ دھکیلا جائے۔

اس سب کے باوجود بھی مولوی ثاقب جلال آباد میں اپنے مدرسے میں رہنے کے بجائے دیگر ساتھیوں سمیت کابل میں خفیہ طور پر زندگی گزار رہے تھے جس کی بہت سی وجوہات تھیں۔

افغان صحافی سمیع یوسفزئی نے بی بی سی کو بتایا کہ طالبان کے قبضہ اقتدار کے بعد سلفی مخالف فرقہ پرست عناصر کافی اثر و رسوخ حاصل کیے ہوئے ہیں جو فرقہ وارانہ تعصب کی وجہ سے سلفی مکتبہ فکر کے سرکردہ افراد کو نشانہ بنانے میں ملوث رہے ہیں۔

اُن کے بقول اس کے ردعمل میں داعش کی صفوں میں موجود سلفی جنگجوؤں کی جانب سے حنفی مسلک کی مساجد و عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا گیا۔ یوسفزئی کے نزدیک مولوی ثاقب کا قتل اسی فرقہ وارانہ لڑائی کا تسلسل ہے اور اس میں انھی فرقہ پرست عناصر کے ملوث ہونے کا امکان زیادہ ہے۔

دوسری جانب طالبان حکومت کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے مولوی ثاقب کے قتل کی پرزور مذمت کرتے ہوئے اسے داعش خراسان کی کارستانی قرار دیا جسے طالبان میڈیا میں ‘خوارج’ اور ‘شرپسند ٹولے’ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔

مجاہد کے علاوہ افغان طالبان کے انٹیلیجنس وزرات کے ترجمان خلیل ہمراز نے بھی اپنے سوشل میڈیا پر ایک مفصل پیغام میں نہ صرف داعش کو اس کارروائی کا مورد الزام ٹھہرایا بلکہ مزید الزام عائد کیا کہ مولوی ثاقب کو کابل کے لیے داعش کمانڈر عمر عرف حیدر عرف رجب کے حکم پر قتل کیا گیا۔

ہمراز نے رجب کے متعلق مزید تفصیلات تو فراہم نہیں کیں مگر امریکی حکومت کی طرف سے پچھلے سال نومبر میں افغانستان کے جن تین داعش کمانڈروں کو عالمی دہشت گرد قرار دیا کیا گیا تھا اس میں مولوی رجب عرف رجب صلاح الدین نامی ایک کمانڈر بھی شامل تھا۔

اسی طرح رواں ہفتے اقوام متحدہ کے سکیورٹی کونسل ادارے کی شائع شدہ ایک رپورٹ کے مطابق مولوی رجب داعش خراسان کے نائب امیر ہیں۔

داعش افغانستان کے رسمی پراپیگنڈا و نشریاتی ادارے ‘موسسہ العزائم’ کے نشر شدہ پیغامات میں طالبان کے حمایت کرنے والے افغانستان کے سلفی مکتبہ فکر کے مذہبی علما کو نہ صرف شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے بلکہ اپنے جنگجوؤں کو اُن کے قتل کا حکم بھی دیا جاتا ہے۔

اس سلسلے میں ایسا تازہ حکم اس عیدالاضحی پر داعش کے سرکردہ رہنما ابوسعد محمد الخراسانی کا تھا جنھوں نے داعش کے جنگجوؤں کو طالبان کی حمایت کرنے والے ان تمام مذہبی علما کو نشانہ بنانے کا پرزور حکم دیا تھا جو طالبان کے حق میں داعش مخالف بیانات دیتے ہیں۔

مولوی احمد شاہ نے بی بی سی کو بتایا کہ اُن سمیت مولوی ثاقب کے ساتھیوں کا، اس قتل میں کسی خاص فرد یا گروپ پر کوئی دعویٰ نہیں کیونکہ ایسے دعوے کے لیے ٹھوس شواہد نہیں۔

انھوں نے بتایا کہ گذشتہ سال اکتوبر میں طالبان سے مفاہمت کے بعد افغانستان میں سلفی مکتبہ کی مشکلات کافی حد تک کم ہوئیں، اگرچہ ان (مشکلات) کا مکمل خاتمہ نہیں ہو سکا۔

داعش خراسان کیا ہے؟

داعش خراسان عالمی شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کی افغانستان سمیت پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا اور وسطی ایشیا کے لیے مقامی شاخ ہے، جس کا مرکز افغانستان ہے۔

اگرچہ داعش کا قیام افغانستان اور پاکستان کے خطے میں جنوری 2015 میں اُس وقت عمل میں آیا تھا جب پاکستانی ریاست مخالف عسکری تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے کئی اہم کمانڈروں نے چند افغان طالبان کمانڈروں کے ساتھ اپنی تنظیم سے علیحدگی اختیار کر کے داعش میں شمولیت اختیار کی۔

اس تنظیم نے جلد ہی پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع خیبر کی دور دراز تیراہ وادی سے متصل افغانستان کے مشرقی صوبہ ننگرھار میں منتقل ہو کر افغان طالبان کے ساتھ ایک شدید رقابتی جنگ کا آغاز کیا۔

افغانستان میں داعش کے بانی، پاکستانی قیادت طالبان، امریکی و افغان فورسز کے ساتھ مسلسل جنگوں کی وجہ سے جلد ہی ختم ہوئے جس کے بعد داعش کی قیادت افغانستان میں مقامی جنگجوؤں کے ہاتھ چلی گئی جس میں بیشتر کا تعلق افغان سلفی مکتبہ فکر سے تھا۔

یوں داعش و طالبان کی لڑائی میں جلد ہی فرقہ واریت کا عنصر شامل ہوا کیونکہ طالبان کی اکثریت اہلسنت کے حنفی مسلک کے دیوبندی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں جن کا سلفی مکتبہ فکر سے مذہبی عقائد پر مسلکی اختلافات رہے ہیں۔

Originally published at https://www.bbc.com on July 22, 2022.

--

--

Abdul Sayed

I am a research analyst focusing on jihadism, Afghanistan, and Pakistan.