نائن الیون حملوں کے 20 برس بعد القاعدہ کہاں کھڑی ہے؟ —
BBC News اردو
- عبدالسید
- محقق و تجزیہ کار، سویڈن
،تصویر کا ذریعہ Getty Images
دو دہائی قبل 11 ستمبر کو امریکہ کی سرزمین پر عالمی تاریخ کے بڑے دہشت گردانہ حملوں کے بعد شدت پسند تنظیم القاعدہ عالمی سیاست کا اہم موضوع بنی۔
القاعدہ نے یہ حملے طالبان کے زیرِ حکومت افغانستان کی سرزمین پر موجود اپنے مراکز سے ترتیب دیے تھے جس کے جواب میں امریکہ نے چند ہفتوں بعد افغانستان پر طالبان حکومت اور القاعدہ کے خاتمے کے لیے حملہ کیا۔
اس مقصد کے لیے امریکہ نیٹو افواج سمیت تقریباً چار درجن اتحادی ممالک کے ساتھ 31 اگست 2021 تک افغانستان میں موجود رہا اور بالآخر اسے یہاں سے بیدخل ہونا پڑا۔
اس مضمون کا مقصد اس بات کا جائزہ لینا ہے کہ دراصل القاعدہ نامی تنظیم کی تاریخ اور حقیقت کیا ہے، پاکستان اور افغانستان سے اس کا کیا تعلق رہا ہے اور گذشتہ 20 برسوں میں اس تنظیم نے اپنی بقا کے لیے کیا سیاسی اور عسکری حکمت عملیاں ترتیب دی ہیں۔
القاعدہ کو عموماً عرب دنیا کی ایک شدت پسند عسکری تنظیم سمجھا جاتا ہے مگر اس کا قیام 33 برس قبل سنہ 1988 میں پاکستان کے صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا) کے دارالحکومت پشاور کے علاقے ‘یونیورسٹی ٹاؤن’ میں ہوا تھا۔
پشاور اس وقت افغانستان میں موجود سویت افواج اور اس کی حمایت یافتہ افغان کیمونسٹ حکومت کے خلاف افغان جہادی تنظیموں کا گڑھ تھا اور اسی مقصد کے لیے عرب دنیا سے بھی ہزاروں جہادی یہاں پر منتقل ہوئے تھے۔
متمول سعودی تاجر خاندان سے تعلق رکھنے والے القاعدہ کے بانی اسامہ بن لادن بھی اپنے اہلخانہ سمیت پشاور منتقل ہو چکے تھے اور نہ صرف یہاں عرب جہادیوں کے ‘پیشوا’ سمجھے جانے والے فلسطینی پروفیسر ڈاکٹر عبداللہ یوسف عزام المعروف شیخ عبداللہ عزام کے دستِ راست بلکہ ان کی عرب دنیا سے آنے والے جہادیوں کی سرپرستی کے لیے قائم ‘مکتبہ الخدمات’ کے اہم ڈونر بنے۔
ناروے سے تعلق رکھنے والے محقق اور عبداللہ عزام پر لکھی گئی ایک تحقیق کے مصنف پروفیسر تھومس ہیگ ہیمر کے مطابق القاعدہ کے قیام سے کچھ عرصہ قبل اسامہ بن لادن پشاور میں موجود ایک مصری جہادی مفکر ڈاکٹر فضل عرف سید امام الشریف کے قریب ہو گئے جو کہ عزام کی نسبت متشدد جہادی نظریات کے حامل تھے اور ان کے بعض امور پر عبداللہ عزام سے شدید اختلافات بھی تھے۔
یہاں سے بن لادن ‘مکتبہ الخدمات’ کے تحت افغان اور عرب جہادیوں کی مالی امداد کی بجائے عسکری کارروائیوں میں دلچسپی لینے لگے جس کے لیے انھوں نے دیگر عرب جہادی رفقا کے ہمراہ القاعدہ کی بنیاد رکھی۔
القاعدہ کے پہلے عسکری انچارج ابو عبیدہ النجشیری نامی مصری جہادی کمانڈر بنے جو مصری سکیورٹی فورسز میں ایک اعلیٰ افسر تھے، مگر ایک مصری انتہا پسند مذہبی تنظیم سے تعلق کی وجہ سے حکومت کے ہاتھوں گرفتاری سے بچنے کے لیے وہ فرار ہو کر پشاور منتقل ہوئے تھے۔
القاعدہ کی ابتدا سے اس کی نائن الیون تک کی تاریخ پر لکھی گئی تحقیقی کتاب کی مصنفہ اینی سٹینرسن کے مطابق افغانستان میں داخلی خانہ جنگی اور پاکستان میں امریکہ اور عرب ممالک کے دباؤ کے باعث پاکستانی سکیورٹی ایجنسیوں کے ہاتھوں القاعدہ سمیت دیگر عرب جہادیوں کی پکڑ دھکڑ کی وجہ سے بن لادن نے القاعدہ کے ہیڈ کوارٹرز کو سنہ 1992 میں سوڈان منتقل کیا۔
پھر مئی 1996 میں کابل پر طالبان کے قبضے سے قبل بن لادن القاعدہ ارکان کے سمیت افغانستان کے مشرقی شہر ننگرھار آئے جہاں اس وقت تک طالبان نہیں پہنچے تھے۔
،تصویر کا کیپشن
ڈاکٹر عبداللہ یوسف عزام
القاعدہ کے معاملات پر لکھنے والے مشہور مصری صحافی و محقق مصطفی حامد اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ‘شروع میں القاعدہ کے طالبان کے حوالے سے کئی تحفظات تھے جو انھیں پاکستانی انٹیلیجنس ایجنسیوں کی جانب سے افغانستان پر مسلط کی گئی ایک ملیشیا تصور کرتے تھے، مگر یہ شکوک و شبہات بعد میں ایسے مضبوط بندھن میں تبدیل ہوئے کہ ہر قسم کے مسلسل دباؤ اور خطرات کے باوجود بھی طالبان کے بانی رہنما ملا عمر نے اسامہ بن لادن اور القاعدہ کی خاطر اپنے اقتدار کا خاتمہ کر دیا۔’
افغانستان میں سنہ 1996 سے سنہ 2001 تک طالبان کے دور اقتدار میں القاعدہ کافی مضبوط ہوئی۔ القاعدہ نے نائن الیون حملوں سے قبل یہاں سے سنہ 1998 میں افریقہ میں کینیا اور تنزانیہ میں واقع امریکی سفارتخانوں پر تباہ کن حملوں اور سنہ 2000 میں یمن میں امریکی فوج کے بحری جہاز کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کی۔
اینی سٹینرسن کے مطابق اس دوران القاعدہ عرب دنیا سے تقریباً ہزاروں نوجوانوں کو افغانستان لائی اور یہاں پر ان کی عسکری اور فکری تربیت کی جنھوں نے نائن الیون کے بعد مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں القاعدہ کی مضوط شاخیں قائم کیں اور مغرب میں القاعدہ کے دیگر حملوں میں بھی اہم کردار بھی ادا کیا۔
نائن الیون کے بعد القاعدہ کی پاکستانی شاخ کا قیام
یہی وہ دور تھا کہ جب القاعدہ افغانستان میں طالبان کی حمایت میں لڑنے والی پاکستانی کشمیری جہادی تنظیموں اور اس کے ذریعے اُن کے پاکستان میں موجود مذہبی اور سیاسی نیٹ ورکس کے قریب ہو گئی، جس کے باعث نائن الیون کے بعد القاعدہ اپنی بقا کے لیے درپیش جنگ میں صف اول کا کردار ادا کر پائی۔
یہی پاکستانی جہادی اور مذہبی تنظیموں کے وہ ارکان تھے جو کہ خاموشی سے اپنی سابقہ تنظیموں سے وفاداریاں بدل کر القاعدہ کی جھولی میں آن گِرے۔
القاعدہ کے موجودہ سربراہ ایمن الظواہری نے 10 ستمبر کو چھپنے والی ایک نئی کتاب کے مقدمہ میں نائن الیون کے بعد القاعدہ کے لیے پاکستان میں اہم کردار ادا کرنے والے ان چند اہم پاکستانی کرداروں کا ذکر کیا ہے جن میں بالترتیب کمانڈر الیاس کشمیری، استاد احمد فاروق، قاری عمران، ڈاکٹر ابو خالد، شیخ عمر عاصم اور حسین نامی پاکستانی شامل ہیں۔
ان سب افراد کا سابقہ تعلق پاکستان کے کشمیری جہادی گروپوں اور ملک کے سنی مکتبہ فکر کے دیوبندی، سلفی مسالک اور جماعت اسلامی جیسی اہم مذہبی سیاسی تنظیموں سے تھا جو نائن الیون کے بعد ریاست کی امریکی حمایت والی پالیسیوں پر اپنی پرانی تنظیموں کی جانب سے کسی خاص عملی ردعمل کے نہ آنے کی وجہ سے القاعدہ کی امریکہ اور پاکستان مخالف جنگ کا حصہ بن گئے۔
،تصویر کا کیپشن
الیاس کشمیری سنہ 2011 میں امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہوئے تھے
القاعدہ میں شمولیت کے بعد ان کی سابقہ تنظیموں نے نہ صرف انھیں اپنی صفوں سے نکال دیا بلکہ ایسے تمام افراد کے ساتھ اپنے ارکان کے کسی بھی قسم کے تعلق پر پابندی لگا دی تھی۔
نائن الیون کے بعد جنم لینے والی القاعدہ کے ان پاکستانی حامیوں نے القاعدہ کو پاکستان میں نہ صرف پناہ گاہیں فراہم کیں بلکہ افغانستان میں امریکہ اور اتحادی افواج کے خلاف محاذ جنگ میں مدد کی۔
اس کے ساتھ القاعدہ نے اپنے ان حامیوں کو پاکستان میں ریاست کے خلاف جنگ کے لیے استعمال کیا اور یوں یہاں القاعدہ کی ایک غیر اعلانیہ شاخ کا قیام عمل میں لایا گیا جو بعد میں جنوبی ایشیا میں القاعدہ کی مضبوط علاقائی تنظیم یعنی ‘القاعدہ برصغیر’ کے قیام کا سبب بنی۔
اینی سٹینرسن سمیت القاعدہ پر کام کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس تنظیم کے قیام کی ابتدائی اسناد کے مطابق بن لادن اور تنظیم کے دیگر بانیان کے نزدیک القاعدہ کے قیام کا مقصد ایک ایسے عالمی جہادی پلیٹ فارم کو قائم کرنا تھا جو کہ دنیا میں مسلح جہادی تحریکوں کو پروان چڑھائے اور اس طرح بتدریج عالمی اسلامی نظام یعنی خلافت کو قائم کر سکے۔
اسامہ بن لادن اور القاعدہ کی دیگر قیادت نے کئی جگہوں پر اپنے بیانات اور تحریوں میں اس کا برملا اظہار کیا ہے کہ امریکہ پر القاعدہ کے تباہ کن حملوں کا اصل مقصد یہ تھا کہ وہ امریکہ کو ایک ایسے خطے میں طویل جنگ کے لیے کھینچ کر لا سکیں جہاں سویت یونین کی طرح عسکری اور معاشی نقصانات کے ذریعے اس کا خاتمہ ممکن ہو پائے۔
بن لادن کے نائن الیون کے ابتدائی برسوں میں لکھے گئے ایک مکتوب کے مطابق اُن کا خیال تھا کہ امریکہ کو کم از کم پندرہ سال جنگ میں مصروف رکھا جائے تو اس سے امریکہ، سویت یونین کی طرح معاشی طور پر دیوالیہ ہو جائے گا۔
اسامہ بن لادن کی اس امید کے تناظر سے دیکھا جائے تو یقیناً القاعدہ اس جنگ میں ناکام رہی ہے کیونکہ 20 سال کی جنگ کے بے تحاشہ مصارف کے باوجود بھی امریکہ کی عالمی سیاست میں حیثیت پر ایسی کوئی ضرب نہیں لگی جو کہ افغانستان سے انخلا کے بعد سویت یونین کے عالمی قوت ہونے کے خاتمے کا باعث بنی تھی۔
اسی طرح امریکہ نے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن سمیت دو، چار رہنماؤں کے علاوہ اس تنظیم کی تمام اہم قیادت کو مارا یا گرفتار کیا ہے۔ اس میں نائن الیون حملوں کے منصوبہ ساز خالد شیخ محمد سمیت وہ تمام القاعدہ ارکان شامل ہیں جو کسی نہ کسی صورت میں ان حملوں کا حصہ تھے۔ مگر اس کے باوجود یہ نہیں کہا جا سکتا کہ القاعدہ کا خاتمہ کیا جا چکا ہے۔
اگرچہ القاعدہ نائن الیون کے بعد لندن میں ہونے والے سنہ 2005 کے دہشت گردانہ حملوں کے علاوہ کوئی دوسرے بڑا حملہ کرنے میں ناکام رہی ہے مگر عالمی دہشت گردانہ حملوں کی بجائے القاعدہ نے علاقائی سطح پر جہادی تحریکوں کو پھیلانے پر اپنی کوششیں صرف کیں جس کی وجہ وہ افغانستان اور عالمی سطح پر اپنے بنیادی مقاصد میں کامیاب رہی۔
یوں دیکھا جائے تو امریکہ بھی اپنے اس بنیادی مقاصد میں ناکام رہا ہے جس کے لیے اس نے افغانستان پر حملہ کیا۔
القاعدہ افغانستان کے دور دراز پہاڑوں سے نکل کر پاکستان، کشمیر سمیت جنوبی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں مضبوط شاخیں اور اتحادی بنا چکی ہیں جن میں سے کئی ایسی قوتیں موجود ہیں جو امریکہ و مغرب کے مفادات کے لیے خطرے کے لحاظ سے القاعدہ سے کئی گنا زیادہ قوی ہیں۔
القاعدہ نے نائن الیون کے بعد پاکستان اور افغانستان میں اپنی تمام تر سیاسی اور جنگی حکمت عملی افغانستان میں طالبان کے مقابلے میں امریکہ کی عسکری ناکامی کے حصول پر مرکوز رکھی۔
جس انداز سے امریکہ کے افغانستان سے نکلتے ہی طالبان دوبارہ زیادہ مضبوطی سے افغانستان میں اقتدار پر مکمل قبضہ کر چکے ہیں اور یہاں تک کہ اپنے ماضی کے اہم مخالف جنگی محاذ شمالی اتحاد کے گڑھ سمجھے جانے والے صوبوں پنجشیر، تخار اور بدخشاں سمیت مکمل افغانستان کو محض چند ہفتوں میں اپنے مکمل زیر قبضہ لاچکے ہیں، اسے نہ صرف طالبان، القاعدہ اور ان کے حامیوں سمیت تمام جہادیوں کی فتح قرار دیا جا رہا ہے بلکہ مغربی دنیا کے مفکرین اور ماہرین سمیت امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کے سابقہ اعلی فوجی اہلکار جو گذشتہ دو دہائیوں میں افغانستان میں طالبان اور القاعدہ کے خلاف جنگ کا حصہ رہے ہیں وہ سب بھی اسے طالبان کی فتح سمجھ رہے ہیں۔
،تصویر کا کیپشن
الشباب القاعدہ
اس کے ساتھ القاعدہ کی کامیابی کا ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ اپنی تمام تر کوششوں اور دباؤ کے باوجود امریکہ طالبان کے ساتھ اپنے طویل مذاکرت میں طالبان سے یہ اعلان نہیں کروا سکا کہ مستقبل میں اس کا القاعدہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رہے گا۔
ہاں البتہ طالبان امریکہ کو یہ پرعزم یقین دہانی کرا چکے ہیں کہ وہ القاعدہ سمیت کسی بھی گروہ یا شخص کو افغانستان کی سرزمین سے امریکہ یا اس کے اتحادیوں کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔
دراصل طالبان کے سربراہ ملا عمر نے تو ماضی میں بھی القاعدہ کے امریکہ کے خلاف سنہ 1998 کے حملوں کے بعد بن لادن پر یہ سخت پابندی لگائی تھی کہ وہ افغان سرزمین سے امریکہ کے خلاف کوئی حملہ نہ کریں مگر اس وقت شاید القاعدہ کے پاس اپنے اہداف کے حصول اور بقا کے لیے دوسرا کوئی راستہ نہیں تھا لہٰذا انھوں نے ملا عمر کی تمام پابندیوں کو خاطر میں لائے بغیر نائن الیون کے حملوں کا ارتکاب کیا۔
مگر آج دیکھا جائے تو طالبان نوے کی دہائی کی طرح تنظیمی، سیاسی اور عسکری لحاظ سے اتنے کمزور نہیں کہ القاعدہ ان کے احکامات کو نظر انداز کر سکے اور نہ ہی آج القاعدہ کو افغانستان سرزمین سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف ماضی جیسے حملوں کی ضرورت ہے۔
ان سب کے علاوہ القاعدہ کی پالیسیوں اور بیانیے کا جائزہ بتاتا ہے کہ اب ایسے حملے شاید اس کی ترجیحات میں شامل نہیں ہیں۔
اب القاعدہ کی ترجیح اول یہ ہے کہ کس طرح یہاں پر ماضی کی طرح طالبان کے نظریے کے مطابق ایک سخت گیر اسلامی نظام حکومت قائم ہو سکے جو ساری دنیا میں دیگر مذہبی گروہوں کے لیے ایک سبق ہو کہ فقط طالبان کی طرح عسکری جہدوجہد سے ہی ان کے مذہبی و سیاسی اہداف کا حصول ہو سکتا ہے۔
Originally published at https://www.bbc.com on September 13, 2021.