کابل میں دولتِ اسلامیہ کے ‘ہمدرد’ سمجھے جانے والے مذہبی رہنما کے قتل کے محرکات کیا ہیں؟ — BBC News اردو

Abdul Sayed
10 min readSep 7, 2021

--

،تصویر کا ذریعہ Payam Haq

افغانستان کے دارالحکومت کابل کے قریب پغمان ضلع کی حدود سے افغانستان کے سلفی یا اہلحدیث مکتبہ فکر کے مذہبی رہنما اور مذہبی مبلغ شیخ ابو عبیداللہ متوکل کی تشدد زدہ لاش گذشتہ اتوار کو ملی۔

شیخ متوکل پر ماضی میں سابق افغان حکومت کی طرف سے عالمی شدت پسند تنظیم نام نہاد دولت اسلامیہ (داعش) کی مقامی شاخ خراسان کی حمایت کے الزامات لگے تھے جس کی وجہ سے انھوں نے طویل عرصہ قید کاٹی۔

مگر حال ہی میں کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد وہ جیل سے نکل گئے تھے۔ شیخ متوکل کے قریبی ساتھی ان کے دولت اسلامیہ خراسان کے ساتھ تعلق کی تردید کرتے ہیں۔

افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر شیخ متوکل کے قتل میں اپنی تنظیم کے ملوث ہونے کی تردید کی ہے اور لکھا ہے کہ طالبان انٹیلیجنس اس قتل کے مجرمان کی تلاش میں ہے۔

شیخ متوکل کا اغوا اور قتل

شیخ متوکل کو 28 اگست کو کابل کے گنجان آباد کمپنی علاقے میں واقع ان کے گھر سے ایک سفید پرائیویٹ کار اور موٹر سائیکل پر سور پانچ مسلح افراد، اہل علاقہ اور ان کے گھر والوں کے سامنے یہ کہہ کر لے گئے تھے کہ ان کا تعلق طالبان سے ہے اور ان کے کچھ رہنما شیخ متوکل سے کسی سلسلے میں ملاقات کے خواہاں ہیں۔

متوکل کے ساتھ ان کے ایک شاگرد کی لاش بھی ملی ہے جو ان کے ساتھ رہائش پذیر تھے اور اغوا میں انھیں بھی ساتھ لے جایا گیا تھا۔

شیخ متوکل کے قریبی ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ اغوا کے بعد ان کے رشتہ دار، شاگرد اور ساتھی قریبی پولیس تھانے میں طالبان سکیورٹی اہلکاروں سے شکایت درج کروانے گئے تو انھوں نے بتایا کہ شیخ متوکل کو شاید طالبان انٹیلجنس اہلکار کسی ‘شک کی بنا پر’ لے گئے ہیں اور انھیں جلد چھوڑ دیا جائے گا۔

ذرائع کے دعوے کے مطابق ان کے پاس اس گفتگو کی ریکارڈنگ موجود ہے۔ اگلے روز انھیں بتایا گیا کہ شیخ متوکل طالبان کی قید میں نہیں اور انھیں ‘شاید اغوا کار لے گئے ہیں مگر طالبان انٹیلیجنس ان کی تلاش میں ہے۔’

ذرائع کے مطابق کابل میں موجود افغان طالبان کے اعلیٰ حکام نے بھی اس سلسلے میں کی گئی ملاقاتوں میں انھیں یقین دہانی کروائی کہ ان کے انٹیلیجنس ذرائع کوششوں میں ہیں اور جلد اس اغوا کی کھوج لگا لیں گے۔ مگر پھر شیخ متوکل کی لاش ایسی حالت میں ملی۔

ان کا سر کسی تیز دھار آلے سے بدن سے الگ کیا گیا تھا اور ان کے جسم کو تیزاب ڈال کر مسخ کیا گیا تھا۔

،تصویر کا کیپشن

طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے عبیداللہ متوکل کے قتل کو ‘امن کے خلاف ایک سازش’ قرار دیا

شیخ متوکل کی نماز جنازہ پیر کو کابل کی مرکزی عید گاہ میں سلفی مکتبہ فکر کے سب سے بڑی تنظیم مجموعہ احیائے سنت کے سربراہ ڈاکٹر ابراہیم بلخی نے ادا کی جس میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی۔

مجموعہ احیائے سنت ایک غیر سیاسی و غیر عسکری افغان تنظیم ہے جو کہ سابق افغان حکومت کے ساتھ رسمی رجسٹرڈ رہی ہے اور اس کا مقصد سلفی مکتبہ فکر کی ترویج اور اس کے مفادات کا دفاع ہے۔ شیخ متوکل اس تنظیم کے بانی اور اہم رکن تھے اور ڈاکٹر بلخی ان کے قریبی ساتھی رہے۔

ان کے ساتھ افغانستان میں سلفیوں کے گڑھ سمجھے جانے والے ننگرھار اور کنڑ کے مشرقی صوبوں میں متوکل کے ہم مسلک افراد اور شاگردوں نے ان کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی جس میں بھی ہزاروں افراد نے شرکت کی۔

ان اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے سلفی مسلک کے سرکردہ مذہبی افراد نے طالبان حکومت سے اس قتل کی تحقیقات کا مطالبہ کیا، اپنے حامیوں کو پُرامن رہنے کی تلقین کی اور امید ظاہر کی کہ طالبان کی نئی حکومت جلد شیخ متوکل اور ان کے ساتھی کے قاتلوں کو گرفتار کر کے سزا دلوائیں گے۔

شیخ متوکل کون تھے؟

شیخ متوکل کا تعلق کابل سے متصل افغانستان کے تاجک اکثریتی صوبہ پروان کے ضلع غوربند سے تھا مگر وہ برسوں سے کابل میں رہائش پذیر تھے۔

اگرچہ متوکل نسل سے پشتون تھے مگر انھیں افغانستان کے دری زبان کے مذہبی حلقوں میں کافی مقبولیت حاصل تھی اور شاید اسی وجہ سے ان کے اکثر بیانات دری زبان میں تھے۔ شیخ متوکل نے پاکستان میں مشہور مذہبی درسگاہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک سے حاصل کی تھی۔

یاد رہے کہ افغان طالبان کی بیشتر قیادت کا تعلق بھی دارالعلوم حقانیہ سے رہا ہے۔

متوکل کے ایک قریبی ساتھی کے مطابق نوے کی دہائی میں تعلیم سے فراغت کے بعد متوکل سلفی مکتبہ فکر کی طرف راغب ہوئے۔ انھوں نے ان ہی برسوں کے دوران کابل میں ایک مذہبی مدرسہ قائم کیا اور اب وہ سارے افغانستان میں سلفی مکتبہ فکر کے سینکڑوں مدارس کے سرپرست تھے۔ انھیں افغانستان میں سلفیوں کے سب سے نامور مذہبی رہنماؤں میں شمار کیا جاتا تھا۔

جب افغانستان میں سال 2015 کے دوران دولت اسلامیہ تیزی سے پھیلنے لگی تو جلد ہی یہ سلفی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کی ایک اکثریتی تنظیم بن گئی۔

شروع میں دولت اسلامیہ کی طرف تقریباً تمام سلفی افراد رجحان اختیار کر گئے تھے جن میں اکثریت کابل کے سلفی بھی تھے جو کہ بیشتر کسی نہ کسی درجہ میں شیخ متوکل کے شاگرد یا عقیدت مند رہے تھے۔

مگر جلد ہی دولت اسلامیہ کے قتل عام اور سخت گیر پالیسیوں کی وجہ سے اکثر سلفی اور خصوصاً سلفی علما اس سے کنارہ کشی اختیار کر گئے جس میں شیخ متوکل بھی تھے۔ مگر ان کے کئی شاگرد اور متعلقین ان سے الگ ہو کر دولت اسلامیہ میں شمولیت اختیار کر گئے۔

شیخ متوکل اور دولت اسلامیہ خراسان؟

طالبان حکومت کے خاتمہ کے بعد گذشتہ دو دہائیوں میں شیخ متوکل کو افغان حکومت نے اپنے خلاف بیانات اور ملک میں غیر ملکی افواج پر تنقید کے ساتھ اور جہادیوں کی جنگ کی حمایت کے الزام میں چار مرتبہ گرفتار کیا۔ مگر وہ ہر بار بغیر سزا رہا ہو جاتے۔

آخری مرتبہ سال 2019 کے اوائل میں انھیں افغان انٹیلیجنس اداروں نے دولت اسلامیہ خراسان سے تعلق کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ شیخ متوکل تین سال جیل میں گزارنے کے بعد گذشتہ مہینے کی پندرہ تاریخ کو کابل پر افغان طالبان کے حملہ کے ساتھ ہزاروں قیدیوں کے ساتھ نکل کر فرار ہو گئے تھے۔

نامور افغان صحافی بلال سروری نے اپنے ایک ٹویٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ سابق افغان حکومت کے اعلیٰ انٹیلیجنس اہلکاروں کے مطابق متوکل نے کابل سے دولت اسلامیہ خراسان کے لیے کافی افرادی قوت مہیا کی تھی جس میں اکثریت اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان تھے جو کہ بعد میں دولت اسلامیہ کی بے شمار خطرناک دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث نکلے۔

دولت اسلامیہ خراسان کے میٖڈیا اور تبلیغی نشریاتی اداروں نے کبھی شیخ متوکل کی کوئی تقریر یا تحریر نشر نہیں کی اور نہ ان کی تعریف و تحسین کی ہے۔ کیونکہ دولت اسلامیہ ان سلفی مذہبی اشخاص کے بیانات یا تحریرات نشر کرتے ہیں جو اس کے عسکری اور سیاسی نظریات سے مطابقت رکھتے ہیں۔

وہ ان تمام سلفی مذہبی اشخاص کے بھی شدید ناقد ہیں جو دولت اسلامیہ کی حمایت نہیں کرتے۔ اس سلسلہ میں دولت اسلامیہ نے کابل میں بعض اہم سلفی مذہبی رہنماؤں کے قتل کی ذمہ داری بھی قبول کی جس میں مشہور ڈاکٹر ایاز نیازی تھے جنھیں پچھلے سال جون میں کابل کے پوش علاقے وزیر اکبر خان میں ان کی مسجد کے اندر بم دھماکہ میں ہلاک کیا گیا۔

شیخ متوکل کے ایک قریبی رفیق اور یونیورسٹی پروفیسر نے سیکورٹی خطرات کی وجہ سے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ متوکل کا دولت اسلامیہ سے ‘کوئی تعلق نہیں تھا۔’

‘وہ محض ایک مذہبی مبلغ تھے جن کے ہزاروں عقیدت مند تھے۔ جن میں سے بعض دولت اسلامیہ خراسان کی صفوں میں ماضی میں شامل ہوئے ہوں گے۔ مگر متوکل کا کبھی بھی بذات خود کسی عسکریت پسند تنظیم سے تعلق نہیں رہا۔’

جیل میں متوکل کے ساتھ رہنے والے سابق قیدیوں کا کہنا ہے کہ جیل میں دولت اسلامیہ کے موجود افراد بعض مذہبی امور پر اختلاف کی وجہ سے متوکل سے شدید نفرت کرتے تھے اور حتیٰ کہ ان کے پیچھے نماز بھی ادا نہ کرتے۔ ان میں اہم وجہ متوکل کے دولت اسلامیہ کے سربراہ کے ساتھ بیعت نہ کرنا تھی کیونکہ دولت اسلامیہ کے پیروکار ہر اس مسلمان کو گمراہ سمجھتے ہیں جو ان کے سربراہ سے بیعت نہ کریں۔

شاید یہی اندرونی مذہبی اختلافات کی وجہ رہی ہوگی کہ شیخ متوکل کے قریبی ساتھی اور کابل یونیورسٹی کے ایک دوسرے پروفیسر استاد مبشر مسلمیار، جو کہ متوکل کی طرح دولت اسلامیہ سے تعلق کے الزام میں گرفتار ہوئے تھے، رہائی کے بعد رواں سال فروری میں کابل میں ایک بم حملہ میں ہلاک ہو گئے تھے۔

،تصویر کا کیپشن

اگست 2019 کے دوران کابل میں ایک شادی کی تقریب پر دولت اسلامیہ کے حملے کے بعد کا منظر

بظاہر ان کے قتل کی ذمہ داری کسی گروہ نے قبول نہیں کی مگر اس وقت دولت اسلامیہ کے رسمی نشریاتی ادارے کابل میں روزانہ کی بنیاد پر اسی طرز کے حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے تھے۔ طالبان نے مسلمیار کے قتل کی مذمت کی جبکہ دولت اسلامیہ کی اس پر خاموشی رہی تھی۔

پروفیسر مبشر مسلمیار کے ساتھیوں کے مطابق دولت اسلامیہ میں ‘شمولیت اختیار کرنے والے’ مسلمیار کے بعض سابقہ شاگردوں نے انھیں اس بنا پر قتل کی دھمکی دی تھی کیونکہ وہ مذہبی حوالوں سے بعض امور میں دولت اسلامیہ کی کھلے عام شدید مخالفت کرتے اور انھیں ایک گمراہ گروہ قرار دیتے تھے۔

جیل سے رہائی کے بعد سوشل میڈیا پر یہ خبریں گردش کرتی رہی کہ بعض طالبان ارکان شیخ متوکل کی تلاش میں ہیں۔ شیخ متوکل نے افغان طالبان کی حمایت میں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو پیغام بھی نشر کیا تھا اور اپنے حامیوں سے طالبان حکومت کی حمایت اور معاونت کی درخواست بھی کی تھی۔

شیخ متوکل کے علاوہ ان کے دیگر ساتھی، جو کہ افغانستان میں سلفیوں کے ممتاز مذہبی رہنما ہیں، مثلاً کابل سے تعلق رکھنے والے استاد معروف راسخ، عبدالظاھر داعی اور ننگرہار سے تعلق رکھنے والے شیخ سردار ولی اور شیخ احمد شاہ کے متعلقین کا کہنا ہے کہ وہ سب بھی اپنی گرفتاری اور قتل کے خوف سے ‘زیرِزمین چلے گئے ہیں۔’

شیخ متوکل کے قتل کے محرکات

افغان طالبان نے رسمی طور پر شیخ متوکل کے قتل کی تردید کی ہے اور اسے افغانستان میں ‘امن کے خلاف ایک سازش’ قرار دیا ہے۔ اس طرح شیخ متوکل کے ساتھیوں نے بھی افغان طالبان کو مورد الزام ٹھرانے کی بجائے ان کی نئی حکومت سے امید ظاہر کی ہے کہ وہ جلد اس واقعے میں ملوث افراد کو کیفرِ کردار پہنچائیں گے۔

مگر اس کے باوجود کچھ ایسے عوامل ہیں جن کی وجہ سے اس قتل کے بیشتر اشارے طالبان کے اندر موجود بعض حلقوں کی طرف جاتے ہیں۔ طالبان کے بیشتر ارکان نے بھی دبے لفظوں میں اس امکان کی مذمت کی ہے اور اس سے طالبان کے مستقبل کے اقتدار کو ایک خطرہ قرار دیا ہے۔

کابل میں موجود باخبر ذرائع اس کو ماننے سے انکار کرتے ہیں کہ جس طریقے سے شیخ متوکل کو اغوا اور قتل کیا گیا اس طریقہ واردات کا طالبان گروہوں کے علاوہ کوئی اور امن کے حالات میں اس کا ارتکاب کرنے کی جرات نہیں کر سکتا۔

شیخ متوکل کے قریبی ساتھیوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اگرچہ اس کی تردید کی کہ افغان طالبان اس میں تنظیمی طور پر ملوث نہیں مگر ان کے بقول کابل میں موجود طالبان کے بعض ایسے عسکری گروہ ہیں جو سلفیوں کے شدید مخالف ہیں اور ان کو ‘واجب القتل’ سمجھتے ہیں۔

ان کا اشارہ حنفی مسلک کے صوفی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے اس گروہ کی طرف ہے جس پر دولت اسلامیہ نے اپنے عروج کے ساتھ کابل میں شدید حملے کیے اور ان حملوں کا دعویٰ ان اراکین پر کیا گیا جو کابل کے سلفی حلقوں سے نکل کر دولت اسلامیہ کے جنگجو بن گئے تھے۔

اس سلسلے میں سب سے بڑا حملہ نومبر 2018 میں تھا جس میں اس گروہ کے ایک مذہبی اجتماع کو خودکش حملہ سے کابل میں نشانہ بنایا گیا جس میں 52 افراد ہلاک اور 83 زخمی ہو گئے تھے۔

اس میں ایک حالیہ حملہ رواں سال مئی میں عید الفطر کے دنوں میں کابل کے ضلع شکردرہ میں ایک مسجد میں کیا گیا جس میں طالبان کے حامی سمجھے جانے والے اسی مکتبہ فکر کے اہم رہنما مفتی نعمان سمیت دیگر افراد مسجد میں مارے گئے۔ یاد رہے کہ کابل میں دولت اسلامیہ کے اکثر جنگجوؤں کا تعلق شکردرہ سے رہا ہے۔

اس کے علاوہ پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے مرکزی شہر پشاور میں بھی دولت اسلامیہ نے اس صوفی گروہ کے اہم رہنما کو ہلاک کیا جو کابل سمیت افغانستان میں پیروکاروں کا ایک وسیع حلقہ رکھتے تھے۔

اس میں پچھلے سال کے اواخر میں پشاور ہی میں ایک ایسے سلفی مخالف مذہبی رہنما شیخ رحیم اللہ حقانی کے مدرسے کو بم دھماکہ میں نشانہ بنایا گیا جس میں سو سے زیادہ افراد زخمی ہوئے تھے۔

حقانی کھلے عام تمام سلفیوں کی تکفیر کرتے ہیں جس کی سینکڑوں ویڈیوز سوشل میڈیا پر موجود ہیں اور بیشتر طالبان جنگجو میں وہ کافی مقبولیت رکھتے ہیں۔

طالبان کے عسکری حلقوں میں اس سلفی مخالف صوفی گروہ کی ایک بڑی اکثریت ہیں۔ مثلاً حقانی کا افغان طالبان کے بعض عسکری حلقوں میں کافی اثر و رسوخ ہے جو کہ افغانستان پر طالبان کے قبضہ کے ساتھ ننگرہار منتقل ہو گئے جہاں سے مخالف سلفی مذہبی رہنما متوکل کی طرح اپنے اغوا اور قتل کے خوف سے نامعلوم مقام پر منتقل ہو چکے ہیں۔

ذرائع کے مطابق ننگرہار اور کابل میں سلفی مسلک کے سرکردہ رہنماؤں نے طالبان قیادت سے ان کو درپیش مشکلات پر ملاقاتیں کی ہیں مگر اس کا کوئی خاطر خواہ جواب نہیں ملا۔

طالبان کے بعض حلقوں میں قریباً ہر افغان سلفی کو دولت اسلامیہ کا حامی سمجھا جاتا ہے مگر یہ ایک غلط رجحان ہے کیونکہ سلفی مذہبی افراد خود بھی دولت اسلامیہ کا نشانہ بنے ہیں۔

دوسرا اہم خطرہ یہ ہے کہ چونکہ دولت اسلامیہ کے اکثریت جنگجوؤں کا تعلق سلفی مسلک سے رہا ہے لہذا حنفی المسلک طالبان کی جانب سے سلفی مکتبہ فکر پر مذہبی پابندیوں کی وجہ سے اس طبقے کے نوجوان دولت اسلامیہ کی طرف پھر راغب ہو سکتے ہیں۔ اس سے افغانستان میں ایک ایسے فرقہ وارانہ قتل و غارت کا آغاز ہو سکتا ہے جو کہ ماضی میں بیشتر مسلمان ممالک میں شیعہ سنی فرقوں کے درمیان رہا ہے، جیسے پاکستان، عراق اور لبنان وغیرہ میں اس قتل و غارت کی ایک خوفناک تاریخ رہی ہے۔

Originally published at https://www.bbc.com on September 7, 2021.

--

--

Abdul Sayed

I am a research analyst focusing on jihadism, Afghanistan, and Pakistan.