کراچی سے تعلق رکھنے والے القاعدہ برصغیر کے نائب سربراہ محمد حنیف کون تھے؟
Who was the deputy head of AQIS, Haneef aka Zarar killed in Afghanistan?
BBC News اردو
افغان سکیورٹی اداروں نے افغانستان کے صوبہ فراہ کے ضلع بکوا میں القاعدہ کی جنوبی ایشیا شاخ، القاعدہ برصغیر، کے نائب سربراہ محمد حنیف عرف ضرار کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
محمد حنیف عرف ضرار کا تعلق کراچی کے علاقے ناظم آباد سے تھا۔
افغان صحافی بلال سروری نے افغان انٹیلیجنس اداروں کے حوالے سے بتایا کہ محمد حنیف بکوا میں افغان طالبان کی مقامی قیادت کی میزبانی میں اپنی فیملی سمیت رہائش پذیر تھے، اور وہ طالبان کے افغان سکیورٹی فورسز کے خلاف کیے جانے والے حملوں کی منصوبہ سازی کے نگران تھے۔
سنہ 2014 میں وزیرستان سے القاعدہ اور اس کی حامی پاکستانی شدت پسند تنظیموں کی افغانستان منتقلی کے بعد وہاں پر پاکستان سے تعلق رکھنے والے القاعدہ کے کئی ارکان امریکہ اور افغان سکیورٹی فورسز کے حملوں میں مارے جا چکے ہیں۔
افغانستان میں ہلاک ہونے والے ان شدت پسندوں میں محمد حنیف کا کردار کافی دلچسی کا حامل ہے جس سے ہمیں گیارہ ستمبر کے بعد افغان طالبان، القاعدہ اور پاکستانی جہادیوں کے گٹھ جوڑ کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
محمد حنیف کا آبائی تعلق پاکستان کے صوبہ سندھ کے شہر کراچی کے علاقہ ناظم آباد سے تھا۔ افغانستان سے طالبان حکومت کی خاتمہ کے بعد پاکستان میں ریاست کے خلاف ہونے والے شدت پسندوں کے حملوں میں محمد حنیف کا کردار کافی نمایاں رہا ہے۔
محمد حنیف سنہ 2002 میں کراچی میں جنرل پرویز مشرف پر موٹر کار بم حملہ کے منصوبہ ساز بھی تھے۔
محمد حنیف نے اپنی جہادی کردار کا آغاز نوے کی دہائی میں حرکت المجاہدین نامی کشمیری جہادی تنظیم سے کیا۔ حرکت المجاہدین افغانستان پر سویت یونین کے حملہ کے خلاف افغان جہادیوں کی حمایت کے لیے قائم کی گئی تھی اور پاکستان کی ابتدائی جہادی تنظیموں میں سے ایک تھی۔
اس تنظیم نے بعد میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں کارروائیوں کا آغاز کیا اور اس کے ساتھ افغانستان میں افغان طالبان کے حکومت کے قیام کے بعد شمالی اتحاد کے خلاف لڑائیوں میں بھی فعال کردار ادا کیا۔
القاعدہ اور پاکستانی جہادیوں کے تعلق پر تحقیق کرنے والے ممتاز امریکی محقق ڈون رسلرز کے مطابق اسی دوران دیگر پاکستانی جہادیوں تنظیموں کی طرح حرکت المجاہدین کے بھی القاعدہ سے افغانستان میں قریبی تعلقات بن گئے جس نے گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد پاکستان میں القاعدہ کے چھپنے اور یہاں سے ان کے دوبارہ نمودار ہونے میں اہم کردار ادا کیا۔
کراچی سے تعلق رکھنے والے ممتاز صحافی نعمت اللہ خان کے مطابق محمد حنیف نے گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد کراچی کے ناظم آباد سے تعلق رکھنے والے ایک دوسرے اہم جہادی کردار، عمران صدیقی، کی سربراہی میں حرکت المجاہدین سے الگ ہو کر ‘حرکت المجاہدین العالمی’ نامی اپنے دھڑے کی بنیاد رکھی تھی۔
ان کے اس عمل کی بنیادی وجہ گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد جنرل پرویز مشردف کے زیر اقتدار پاکستانی ریاست کی پالیسیاں تھیں جن کو پاکستانی جہادی شدید نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔
پاکستانی جہادی افغان طالبان کی حکومت کے خاتمے اور پاکستان میں القاعدہ اور دیگر جہادیوں کی گرفتاریوں کو ان ہی پالیسیوں کا ثمر قرار دیتے تھے۔ اسی طرح حرکت المجاہدین العالمی کی شکل میں القاعدہ کو پاکستان میں ایک مضبوط گروہ ہاتھ لگا جس نے القاعدہ کے لیے پاکستان میں نمایاں کردار ادا کیے۔
پاکستانی صحافی فیض اللہ خان کے مطابق ان افراد نے القاعدہ کو پاکستان میں چھپنے کے لیے پناہ گاہیں اور مالی معاونت کے علاوہ القاعدہ کی ریاست پاکستان خلاف جنگ میں اہم کرداد ادا کیا۔
فیض اللہ خان نے مزید بتایا کہ عمران صدیقی اور محمد حنیف کی سربراہی میں حرکت المجاہدین وہ پہلا پاکستانی گروہ تھا جس نے جنرل پرویز مشرف پر حملہ کے علاوہ پاکستان میں امریکی اور مغربی مفادات پر اولین حملے کیے جن میں کراچی میں امریکی قونصلیٹ پر حملہ اور کراچی ہی میں فرانسیسی انجنیئیرز کی بس پر حملہ شامل تھا جس میں کئی فرانسیسی انجینئیرز مارے گئے تھے۔
القاعدہ اور تحریک طالبان پاکستان کے نشریاتی مواد کا مطالعہ بتاتا ہے کہ کراچی کے علاوہ خیبر پختونخوا سے بھی بعض اہم افراد نے گیارہ ستمبر اور خصوصاً لال مسجد کے واقعہ کے بعد حرکت المجاہدین کی قیادت کی پاکستانی ریاست کی پالیسیوں پر خاموشی کے خلاف بغاوت کر کے پاکستان میں القاعدہ کی ریاست مخالف جنگ کا حصہ بن گئے۔
اس افراد میں سرِفہرست بدر منصور، فرمان شنواری، عبدالولی مہمند (عمر خالد خراسانی) اور قاری شکیل وغیرہ شامل تھے۔ بدر منصور اور فرمان شنواری پاکستان میں القاعدہ کے اہم رہنما بن گئے جبکہ خراسانی اور شکیل کا تحریک طالبان پاکستان کی قیام میں نمایاں کردار رہا ہے۔
محمد حنیف، عمران صدیقی اور اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ جون 2002 میں پرویز مشرف پر ہونے والے حملے کے الزام میں گرفتار ہوئے اور انھیں آٹھ سال قید کی سزا سنائی گئی۔
نعمت اللہ خان کے مطابق پاکستانی سکیورٹی اداروں کے ہاتھوں حرکت المجاہدین العالمی کے دیگر افراد کے گرفتار اور مارے جانے کی وجہ سے سال 2008 میں کراچی میں اس کے نیٹ ورک کا خاتمہ ہوا جس کے بعد اس کے باقی افرد وزیرستان منتقل ہو کر القاعدہ کے ساتھ مل گئے۔
سنہ 2010 میں صوبہ سندھ کی ہائیکورٹ نے محمد حنیف اور عمران صدیقی کی جیل سے رہائی کا حکم جاری کیا جس کے بعد یہ دونوں بھی وزیرستان منتقل ہو کر القاعدہ کی پاکستانی قیادت کا اہم حصہ بن گئے۔
القاعدہ کے لیے پاکستان میں انتہائی سخت حالات میں نمایاں کارنامے انجام دینے کی وجہ سے وزیرستان میں القاعدہ کی مرکزی قیادت نے فوراً ہی ان دونوں کو اہم ذمہ داریاں دیں۔
عمران صدیقی وزیرستان میں القاعدہ کی تربیتی مراکز کے سربراہ بن گئے جبکہ محمد حنیف القاعدہ کے نئے پاکستانی ارکان کو دہشت گردی کی عملی تربیت دینے والے استاد۔
عمران صدیقی نے وزیرستان میں القاعدہ کے حلقوں میں شیخ ولی اللہ اور محمد حنیف نے ضرار، ایوب، نسیم اور عبداللہ کے ناموں سے شہرت پیدا کی۔ القاعدہ برصغیر کے قیام کے بعد محمد حنیف نے صدیقی کی سربراہی میں اس میں شمولیت اختیار کی۔
پاکستانی سکیورٹی حکام اور القاعدہ کے نشریاتی مواد کے مطابق نومبر 2014 میں وزیرستان میں پاکستانی فوج کے آپریشن کے بعد افغانستان منتقلی کے دوران عمران صدیقی کے امریکی ڈرون حملہ میں مارے جانے کے بعد محمد حنیف القاعدہ میں صدیقی گروپ کے سربراہ بن گئے، جنھیں بعد میں القاعدہ برصغیر کا نائب سربراہ بھی بنایا گیا۔
محمد حنیف کے علاوہ افغانستان میں دیگر مارے جانیوالے القاعدہ برصغیر کی صف اول کی قیادت کا افغان طالبان سے دیرینہ تعلق اور وفاداری ان کے ابتدائی دور سے ہیں۔
یہ وہ افراد ہیں جو کہ گیارہ ستمبر سے قبل افغانستان میں افغان طالبان کی حمایت کے لیے لڑ رہے تھے اور پھر انھوں نے القاعدہ کی سرپرستی میں پاکستان میں اپنی ریاست کے خلاف جنگ کا آغاز کیا جس کو یہ لوگ افغان طالبان کی دفاع کے جنگ کا نام دیتے رہے ہیں۔
اگرچہ ایک طرف ان سے قطع تعلق کرنا افغان طالبان کے لیے بڑا چیلنج ہے تاہم دوسری طرف ان کا یہ دیرینہ تعلق اس کی نشاندہی کرتا ہے کہ شاید مستقبل میں افغانستان میں موجود القاعدہ کے یہ غیر ملکی عناصر کسی ایسے اقدام سے گریز کریں جو کہ افغان طالبان کے لیے کسی مشکل کا سبب بن سکے۔
مگر پھر بھی یہ سوال اہمیت کا حامل ہے کہ افغانستان میں القاعدہ کا مستقبل کیا ہو گا۔
Originally published at https://www.bbc.com on November 16, 2020.