کیا طالبان لشکر گاہ پر قبضہ کر کے اسے برقرار رکھ سکیں گے؟ —
عبد السیّد، محقق، سوئیڈن
BBC News اردو
،تصویر کا ذریعہ Getty Images
افغان صوبے ہلمند میں طالبان اور حکومتی فورسز کے درمیان جنگ نے کافی شدت اختیار کر لی ہے۔ طالبان صوبائی دارالحکومت لشکر گاہ میں داخل ہوچکے ہیں جہاں پر انہوں نے سرکاری ریڈیو ٹیلی وژن کے صوبائی دفتر پر قبضہ کر کے یہاں پر بیس سال بعد اپنی نشریات کا آغاز کیا ہے۔
اس کے علاوہ حکومتی فورسز اور طالبان کے درمیان گورنر ہاوس اور شہر کے دیگر حساس علاقوں میں شدید جھڑپیں جاری ہیں۔ لشکر گاہ میں موجود مقامی افراد کا کہنا ہے کہ شہر کے جن علاقوں پر طالبان کا قبضہ ہے وہاں حکومتی ہوائی فورسز کی جانب سے شدید بمباری جاری ہے جس میں ایک یونیورسٹی کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
افغان طالبان کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ہفتے کے روز اپنے ٹوئٹر اکاونٹ سے دعویٰ کیا تھا کہ حکومتی فورسز نے انڈین حکومت کے فراہم کردہ جنگی جہازوں سے لشکر گاہ کے بڑے ہسپتال کو نشانہ بنایا۔
نامور افغان صحافی بلال سروری کے مطابق منگل کی صبح امریکی ہوائی جنگی جہازوں نے بھی لشکر گاہ میں طالبان جنگجوں پر دو مرتبہ شدید بمباری کی۔
لشکر گاہ میں موجود طالبان ملٹی میڈیا کمیشن کے سربراہ اسد افغان نے راقم الحروف کو منگل کی تازہ صورتحال کے متعلق بتایا کہ طالبان نے لشکر گاہ میں گورنر ہاوس، مرکزی جیل، پولیس، انٹیلیجنس اور فوج کے صوبائی ہیڈکوارٹرز کے علاوہ دیگر تمام سرکاری عمارتوں پر قبضہ کر لیا ہے۔
مقامی افراد نے اسد افغان کی اس دعوے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ طالبان نے ان عمارتوں کا محاصرہ کر رکھا ہے جس سے حکومتی فورسز ایک دوسرے کی مدد کو نہیں پہنچا پا رہیں۔ اسد افغان نے دعویٰ کیا کہ طالبان نے لشکر گاہ میں واقع صوبے کے واحد ائیر پورٹ کا بھی مکمل محاصرہ کر رکھا ہے اور ان کے جنگجو کسی جہاز کو اڑنے یا اترنے نہیں دے رہے ہیں۔
صحافی بلال سروری نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ طالبان نے منگل کی صبح ایک موٹر بم حملے میں لشکر گاہ جیل کو نشانہ بنایا جس سے جیل کے ایک طرف کی دیوار منہدم ہوچکی ہے۔
بلال سروری نے مزید بتایا کہ شدید لڑائی کی وجہ سے مقامی لوگوں کو سخت مشکلات کا سامنا ہے اور لوگ اپنے گھروں میں قید ہیں۔
ماضی قریب میں ہلمند کے دیگر اضلاع سے بھی اکثر لوگ طالبان کی پیش قدمی کے بعد صوبائی مرکز سے نقل مکانی کر چکے تھے جس کی وجہ سے اب شہر میں کھانے پینے کی اشیا کی شدید قلت ہے۔
شہر کے مرکزی بازار کے نصف حصہ پر حکومتی فورسز کا کنٹرول ہے اور باقی طالبان کے زیر قبضہ ہے۔ شدید لڑائی کی وجہ سے زخمیوں کو ہسپتال پہنچانا مشکل ہے۔
طالبان نے گذشتہ روز سوشل میڈیا پر کچھ ایسی ویڈیوز بھی نشر کیں جن میں دو درجن کے قریب ان افغان فوجیوں کو دکھایا گیا اور ان سے بات چیت کی گی جو ان کے بقول لشکر گاہ میں انھوں نے پکڑے تھے۔ بلال سروری کے مطابق پکڑے گیے فوجی اور حکومتی اہلکار طالبان کو دیگر فوجیوں اور حکومتی اہلکاروں کی نشاندہی کررہے ہیں جو لشکرگاہ سے فرار ہونے کی کوششوں میں ہے۔
،تصویر کا ذریعہ Getty Images
لشکر گاہ کی اہمیت کیا ہے؟
طالبان کے قریب سمجھے جانے والے افغان صحافی نصیب زدران کے مطابق تاریخی لحاظ سے جس کا ہلمند پر کنٹرول رہا ہے، اسے افغانستان کے جنوبی اور مغربی صوبوں میں برتری حاصل رہتی ہے۔ زدران کے مطابق لشکرگاہ پر طالبان کے قبضہ سے افغانستان کے جنوبی اور مغربی صوبے خصوصاً ہرات اور قندھار مکمل طور پر طالبان کے کنٹرول میں آجائیں گے۔ اس لیے طالبان اور حکومت دونوں جانب سے لشکر گاہ پر قبضہ کی اس جنگ نے ایسی سخت شدت اختیار کی ہے۔
تین ماہ قبل یکم مئی کو جب افغان طالبان نے گذشتہ سال فروری میں امریکہ کے ساتھ کیے گئے دوحہ معاہدے کی جنگ بندی کے مدت کے اختتام پر اپنے حملوں کا آغاز کیا تو طالبان نے اس کی شروعات بھی ہلمند سے ہی کی تھی۔
طالبان نے صوبائی دارالحکومت لشکر گاہ کے علاوہ ناوا اور نہر السراج اضلاع پر شدید منظم حملے کیے جنہیں شروع میں حکومتی فورسز کے مقابلے میں کئی کامیابیاں ملیں مگر محض چند روز کے بعد حکومتی فورسز نے شدید فضائی بمباری کی مدد سے طالبان کو نہ صرف پیچھے دکھیل دیا بلکہ ان کو شدید نقصانات سے بھی دوچار کیا۔ مگر اب طالبان نے ہلمند کے تمام پندرہ اضلاع پر قبضہ کر لیا ہے۔
ہلمند افغانستان کے جنوب میں واقع ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے جس کی سرحدیں پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے علاوہ سات افغان صوبوں کے ساتھ ملتی ہیں جن میں قندھار، نیمروز، فراہ، غور، دایکندی، ارزگان اور زابل شامل ہیں۔
ہلمند افغان طالبان کا ایک تاریخی مضبوط گڑھ رہا ہے جو نائن الیون کے بعد ان افغان صوبوں میں شامل تھا جہاں پر طالبان نے جلد ہی اپنے قدم جمائے۔ یہ وہ صوبہ ہے کہ جہاں پر امریکہ اور اس کی اتحادی افواج کو طالبان کی تاریخی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ ہلمند کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ افیون کی کاشت اور پیداوار کی اہم جگہ ہے ۔
صحافی و تجزیہ کار ڈاکٹر داود اعظمی نے راقم الحروف کو بتایا کہ پچھلے بیس سالوں میں یہ پہلی مرتبہ ہے کہ طالبان نے لشکر گاہ کی اندرونی اہم جگہوں تک رسائی حاصل کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ افغان زمینی فورسز کو بعض جگہوں ميں طالبان کے مقابلے میں ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے مگر ان کو فضائی بمباری کی مدد حاصل ہے جو ان کے خیال میں طالبان کی پیش قدمی آہستہ کر کے يا روک کر ان کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کرسکتی ہے۔
افغانستان میں انٹرنیشل کرائسز گروپ سے وابسطہ تجزیہ کار انڈریو واٹکنز کا کہنا ہے کہ لشکر گاہ کی صورتحال انتہائی خراب ہے، اس شہر کے باہر سے روابط بالکل کٹ چکے ہیں اور اگر طالبان کے حالیہ حملے سے اس کا دفاع کر لیا بھی جائے تو پھر بھی حکومتی فورسز اس صورتحال میں شاید زیادہ دیر تک اس پر اپنا قبضہ برقرار نہ رکھ سکیں۔
،تصویر کا ذریعہ Getty Images
ان کے مطابق اگرچہ یہ یقینی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ آیا لشکر گاہ وہ پہلا صوبائی دارالحکومت اور بڑا شہر ہوگا جو طالبان کے قبضہ میں آجائے گا مگر یہ واضح ہے کہ اس شہر پر قبضہ طالبان کے اولین ترجیحات میں شامل ہے۔
واٹکنز جو ماضی میں افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے سیاسی مشن کا بھی حصہ رہ چکے ہیں، انھوں نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ لشکر گاہ پر ممکنہ طالبان کا قبضہ ان کے ان حالیہ دعوں کی نفی کرتا ہے جس میں طالبان نے کہا تھا کہ وہ افغان عوام کو نقصانات سے بچانے کی خاطر فی الحال بڑے شہروں پر قبضہ کرنے کی کوشش نہیں کریں گے جو کہ ان کے بقول یہاں پر عوام کے شدید جانی نقصانات کا سبب بن سکتا ہے۔
واٹکنز کا کہنا کہ لشکر گاہ پر طالبان شاید فی الحال اپنی عسکری قوت دکھانے کے لیے چند دن کا علامتی قبضہ جمائیں اور اپنے جنگجوں کی حکومتی فورسز کی فضائی بمباری میں جانی نقصانات سے بچانے کے لیے شاید جلد ہی یہاں سے نکل جائیں۔
سابق افغان ڈپٹی منسٹر اور سفارتکار زردشت شمس کا کہنا ہے کہ حالیہ جنگوں میں طالبان کو ہوائی بمباری کی وجہ سے شدید جانی نقصانات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ایسے صورتحال میں لشکرگاہ جیسے بڑے شہر کو حکومتی فضائی بمباری کی وجہ سے شائد وہ زیادہ دیر اپنے قبضہ میں نہ رکھ سکے۔
اس لیے شمس کو لگتا ہے کہ شائد طالبان لشکر گاہ پر قبضہ نہیں کریں گے بلکہ اپنے جنگی قوت کے اظہار کے لئے یہاں پر ایک مختصرا قبضہ کر کے حکومتی فورسز پر اپنی برتری دکھانا چاہتے ہیں جس کا مظاہرہ اس کے بقول چھ سال قبل طالبان نے قندوز میں کیا۔
مگر ان دو ماہرین کی رائے پر یہ سوال بھی ابھرتا ہے کہ شاید لشکر گاہ پر طالبان کے قبضہ کے بعد وہاں سے حکومتی فورسز کا ان کو نکال باہر کرنا دیگر صوبوں میں طالبان جنگجوں کے مورال کو نقصان پہنچائے کیونکہ افغان حکومت کے ارکان اور طالبان کے دیگر افغان مخالفین شروع سے یہ کہتے آرہے ہیں کہ طالبان نے اب تک جن اضلاع پر قبضہ کیا وہ دور افتادہ کم آبادی والے علاقے ہیں جبکہ بڑے شہروں میں ملک کی بیشتر آبادی آباد ہے، اس لیے حکومتی فورسز ان کے دفاع پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں اور طالبان کا ان پر قبضہ آسان نہیں۔
واٹکنز زردشت شمس کے برعکس نصیب زدران کا کہنا ہے کہ لشکر گاہ کی لڑائی سے لگتا ہے کہ طالبان نے اپنی جنگی حکمت عملی میں تبدیلی لائی ہے۔ انھوں نے اب تک بڑے شہروں اور صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کرنے سے اجتناب کیا تھا کیونکہ اس کے لیے زیادہ وسائل اور افرادی قوت کا درکار ہوتی ہے اور اسی لیے طالبان نے لشکر گاہ پر قبضہ کے لیے اپنی سپیشل فورسز سمیت کافی افرادی قوت لگا رکھی ہے۔
ان کے مطابق طالبان لشکر گاہ پر جلد از جلد قبضہ کرنا چاہتے ہیں تاکہ یہاں سے گزرنے والی جنوبی اور مغربی اضلاع کی شاہراہوں کو اپنے کنٹرول میں لاسکیں اور یہاں پر مصروف اپنی کثیر افرادی قوت اور خصوصی دستوں کو دیگر شہروں پر قبضے کے لیے بڑھائیں۔
ہلمند میں افغان فورسز کے سربراہ جنرل سمیع سادات
ہلمند میں طالبان کے خلاف لڑائی میں حکومتی فورسز کی قیادت کرنے والا بریگیڈئیر جنرل سمیع سادات ہیں جو افغان فوج کے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ جنرل ہیں۔ ان کی ابتدائی تعلیم اور پرورش اسی صوبہ میں ہوئی۔ جنرل سادات افغان آرمی کے میوند کورپس کے سربراہ ہیں اور وہ اس سے قبل افغان انٹیلجنس کے ایک اہم اہلکار اور افغان سپیشل فورسز کے کمانڈر رہ چکے ہیں۔
سادات نے امریکہ اور یورپ کی ملٹری اکیڈمیوں میں پیشہ ورانہ مہارت کی تعلیم حاصل کی ہے اور ان کی افغانستان میں امریکی فورسز کے سربراہ جنرل سکاٹ ملر کے ساتھ طویل قریبی دوستی بھی رہی ہے۔
سادات شروع سے ہلمند میں افغان طالبان اور القاعدہ کے اہم ہدف رہے ہیں کیونکہ انھوں نے ہلمند میں القاعدہ اور طالبان کے خلاف ہونے والے بیشتر اہم حملوں کی خود نگرانی کی ہے۔
بلال سروری کے ساتھ اس سال مئی مہینے کے آخر میں اپنے ایک طویل آڈیو انٹرویو میں جنرل سادات نے انکشاف کیا کہ ہلمند کے لیے طالبان کے موجودہ گورنر مولوی عبداالاحد عرف مولوی طالب کو انھوں نے چند برس قبل ہلمند کے ضلع سنگین سے گرفتار کر کے کابل میں کئی ہفتوں تک ان کی خود انٹروگیشن کی تھی جو بعد میں دوحہ معاہدہ کے تحت طالبان کے رہا ہونے والے قیدیوں میں شامل تھے۔
،تصویر کا ذریعہ WAKIL KOHSAR
ہلمند، القاعدہ اور پاکستانی طالبان
پاکستانی طالبان اور القاعدہ کے نشریاتی و تبلیغی مواد کا جائزہ لیں تو افغان طالبان کے ان دونوں اتحادی گروہوں نے شروع سے ہی ہلند میں طالبان کی امریکہ، اس کے اتحادیوں اور افغان فورسز کے خلاف جنگوں میں بھرپور معاونت کی ہیں۔ 2007 سے جب طالبان نے یہ جنگی محاذ فعال بنایا تو یہ دونوں گروہ اپنے جنگجوں کو افغان طالبان کی صفوں میں لڑنے کے لیے یہاں پر بجھواتے رہے ہیں۔
جنرل سمیع سادات نے بھی اپنے آڈیو انٹرویو میں یہ انکشاف کیا تھا کہ القاعدہ اور اس کی برصغیر شاخ کے ارکان اب بھی ہلمند میں طالبان کے ساتھ پناہ لیے ہوئے ہیں جو کہ حکومی فورسز کے ساتھ لڑائی میں طالبان کو مالی، تکنیکی اور افرادی مدد فراہم کر رہے ہیں۔
القاعدہ کے رسمی نشریاتی اور تبلیغی اداروں شائع شدہ مواد کا باریک بینی سے جائزہ بھی جنرل سادات کے ان دعوں کی تصدیق کرتا ہے۔ مثلاً وزیرستان سے سال 2015 میں القاعدہ کے انخلا کے بعد ہلمند ابتدائی وہ ایک اہم صوبہ تھا جہاں افغان طالبان کے زیر قبضہ علاقوں میں القاعدہ نے پناہ حاصل کی۔ یہیں پر سال 2019 کے ستمبر مہینے میں القاعدہ برصغیر کے سربراہ مولانا عاصم عمر امریکی اور افغان فورسز کے ایک مشترکہ حملے میں مارے گئے جو افغان طالبان کے ایک مقامی کمانڈر کے گھر میں اپنے ساتھیوں اور اہل خانہ سمیت رہائش پذیر تھے۔
اسی طرح اس سے ایک سال قبل جون کے مہینے میں پنجاب کے ضلع خانیوال سے تعلق رکھنے والے القاعدہ برصغیر کے خارجہ امور کے سربراہ اور پاکستان میں نائین الیون کے بعد القاعدہ کا اہم بانی رکن رانا عمیر افضل بھی یہیں پر امریکی اور افغان فورسز کے ایک مشترکہ حملہ میں نشانہ بنے۔
اس کے علاوہ سال 2016 کے ستمبر مہینے میں یہاں پر القاعدہ برصغیر کے نشریاتی اور تبلیغی ادارے السحاب برصغیر کے سربراہ انجینئیر اسامہ ابراہیم غوری بھی ایک امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے جن کا تعلق پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے تھا۔
Originally published at https://www.bbc.com on August 4, 2021.