کیا پراسرار شناخت کے حامل ڈاکٹر شہاب المہاجر ‘داعش خراسان’ کے نئے سربراہ ہیں؟

Abdul Sayed
10 min readAug 21, 2020

--

BBC News اردو

حال ہی میں عالمی شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ (داعش) کے متعلق کچھ ایسی خبریں سامنے آئی ہیں کہ افغانستان میں پے در پے شکست سے دوچار ہونے کے بعد اس کے بچے کچھے افراد اس خطے میں اپنی جماعت کی ازسرِ نو تنظیم سازی کے عمل میں مصروف ہیں۔

اس حوالے سے مختلف ذرائع سے یہ معلومات ملی ہیں کہ پاک افغان داعش یا دولت اسلامیہ خراسان کی سربراہی کے لیے ڈاکٹر شہاب المہاجر نامی ایک ایسے شخص کا انتخاب کیا گیا ہے جن کا تعلق مشرق وسطٰی سے ہے اور وہ ماضی میں اس خطے میں القاعدہ سے وابستہ رہے ہیں۔

اب تک داعش خراسان کے جتنے بھی سربراہ گزرے ہیں ان سب کا تعلق پاکستان اور افغانستان سے رہا ہے مگر یہ پہلی مرتبہ ہے کہ ایک غیر مقامی شخص کو تنظیم کی سربراہی کے لیے منتخب کیا گیا ہے، جس کا تجزیہ چند پہلوؤں سے توجہ طلب ہے جو کہ اس تحریر میں زیرِ بحث لایا گیا ہے۔

اگرچہ مرکزی داعش نے اپنے رسمی نشریاتی ذرائع سے اب تک خراسان شاخ کے نئے امیر کا اعلان نہیں کیا تاہم ماہرین کے نزدیک یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔

امریکہ سے تعلق رکھنے والی پاکستانی نژاد پروفیسر اور داعش خراسان پر تحقیق کرنے والی ڈاکٹر عامرہ جدون کا کہنا ہے کہ داعش اپنے ذیلی شاخوں کے اول منتخب ہونے والے سربراہ کی باقاعدہ رسمی طور پر تشہیر تو کرتی ہے مگر بعد میں مقرر ہونے والے ان کے جانشینوں کے لیے عموما ایسا نہیں کیا جاتا۔

حال ہی میں یورپین یونیورسٹی انسٹیٹیوٹ سے جہادی گروہوں کے باہمی تنازعات کے موضوع پر پی ایچ ڈی مکمل کرنے والے محقق توری رمزفیلڈ ہیمنگ کا کہنا ہے کہ داعش کی ذیلی شاخوں کے جانشین سربراہوں کا رسمی طور پر تعارف عموماً ایک طویل عرصہ بعد داعش کے مرکزی جرائد میں چھپنے والے ان کے مصاحبوں کی صورت میں دیکھنے کو آتا ہے۔

اسی تناظر میں مرکزی داعش کی جانب سے ڈاکٹر شہاب المہاجر کی بحیثیت ‘والی’ تعیناتی اور ان کا شخصی پسِ منظر جاننے کے لیے شاید ہمیں داعش کے کسی ایسے ہی شمارے میں ان کے انٹرویو کے چھپنے تک کا انتظار کرنا پڑے گا، جو کہ شاید کئی مہینے کا وقت لے۔

مگر ڈاکٹر شہاب المہاجر کی قومیت اور ان کے داعش خراسان کے نئے سربراہ کی تعیناتی کے حوالے سے چند باوثوق ذرائع سے ایسے دعوے ملتے ہیں جن کا تجزیہ کرنے سے یہ اندیشہ زور پکڑتا ہے کہ شاید ٹوٹ پھوٹ کا شکار داعش دوبارہ منظم ہو کر افغان حکومت، امریکی افواج اور افغان طالبان کے ساتھ ہونے والے امن معاہدے کے لیے مسقبل میں دوبارہ درد سر بن سکتی ہے۔

داعش خراسان کے نئے سربراہ کا ذکر پہلی مرتبہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے افغانستان کی سکیورٹی کے حوالے سے شائع کردہ اپنی ایک مفصل رپورٹ میں کیا۔

مئی 2020 میں شائع ہونے والے اس رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ شام سے تعلق رکھنے والے ابو سعید محمد الخراسانی داعش خراسان کی سربراہی کے لیے دو افراد میں سے ایک مضبوط امیدوار ہیں۔

اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ ابوبکر البغدادی کی ہلاکت کے وجہ سے مرکزی داعش کی بجائے داعش خراسان اندرونی طور پر اپنے نئے سربراہ کے چناؤ کا فیصلہ کرے گی۔

اس سلسلے میں دوسرا دعویٰ عالمی سطح پر معروف افغان صحافی بلال سروری نے افغان سکیورٹی حکام کے حوالے سے کیا تھا جس کے مطابق داعش خراسان کے نئے سربراہ کا نام ڈاکٹر شہاب المہاجر ہے، جن کا تعلق عراق سے ہے اور وہ ماضی میں اس خطے میں القاعدہ کے ایک عسکری کمانڈر رہ چکے ہیں۔

ان کے علاوہ افغانستان میں کرائسس گروپ سے وابسطہ سینئیر تجزیہ کار برہان عثمان کا اپنے ذرائع کے حوالہ سے دعویٰ ہے کہ داعش کے نئے منتخب سربراہ کا نام ڈاکٹر شہاب المہاجر ہی ہے اور درحقیقت وہ پاکستان کے قبائلی ضلع باجوڑ سے تعلق رکھنے والی تحریک طالبان پاکستان ایک سابقہ جنگجو ہیں۔

اسی عرصہ میں مرکزی داعش کے ادارہ الولایت البعیدہ کی طرف سے داعش خراسان کے سربراہ کے تقرر کے لیے جاری کیا گیا ایک رسمی مکتوب بھی منظر عام پر آیا جس میں ڈاکٹر شہاب المہاجر نامی شخص کے داعش خراسان کے نئے سربراہ ہونے کا اعلان کیا گیا ہے۔

مگر یہ خط داعش کے نئے سربراہ کے نام کی تصدیق کے علاوہ مزید کوئی اور معلومات فراہم نہیں کرتا۔

ماہ جون کے اوائل ہی میں داعش خراسان کے غیر رسمی سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے دو طویل پیغامات شائع ہوئے جن میں داعش خراسان سے منسلک شدت پسندوں کو ڈاکٹر شہاب المہاجر کے نیا امیر منتخب ہونے کی ‘خوشخبری’ دی گئی تھی۔

اس میں سے ایک پیغام یوسف المہاجر نامی شخص کے جانب سے تحریر کیا گیا تھا۔ اس میں یہ بتایا گیا تھا کہ داعش خراسان کے نئے سربراہ ڈاکٹر شہاب المہاجر ننگرہار اور کابل میں شدت پسندی کے حملوں کی منصوبہ سازی کا طویل تجربہ رکھتے ہیں۔

اسی طرح یوسف آرمان نامی شخص نے بھی اپنے ایک طویل تحریر میں افغانستان میں داعش کے بچے کچھے افراد کو یہ باور کروانے کی کوشش کی کہ ڈاکٹر المہاجر ایک تجربہ کار اور مظبوط سربراہ ہیں اور جلد ہی وہ ‘داعش خراسان کے مارے جانے والے ساتھیوں’ کا انتقام لیں گے اور گرفتار شدہ افراد کو قید سے رہا کروایا جائے گا۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ داعش خراسان کا نشریاتی ادارہ ‘الملت’ کے نام سے کافی فعال ہے مگر اس کی جانب سے ان دونوں تحریروں کی تردید نہیں کی گئی بلکہ کچھ ایسے موقد شائع کیے گئے جو دراصل ان دونوں تحریروں کی حمایت کرتے ہیں۔

اسی نشریاتی ادارے نے ہی انجینیئر سلطان عزیز عزام کی آواز میں داعش خراسان کے نئے سربراہ ڈاکٹر شہاب المہاجر کا پیغام نشر کیا ہے۔ حال ہی میں افغانستان کے مشرقی صوبہ ننگرہار کی مرکزی جیل پر داعش کے حملہ کی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے بھی انجینیئر عزام نے 20 منٹ طویل صوتی (آڈیو) پیغام نشر کیا جس میں داعش کے نئے والی ڈاکٹر شہاب المہاجر کو اس تمام حملے کا منصوبہ ساز قرار دیا گیا ہے۔

انجنئیر عزام داعش خراسان کے میڈیا ‘مسئول’ اور شدت پسند تنظیم کے ریڈیو چینل کا ایک جانا پہچانا نام رہ چکے ہیں جن کا تعلق افغانستان کے صوبہ ننگرہار سے ہے۔

اب تک کی اس تمام بحث سے یہ بات تو واضح ہو رہی ہے کہ ڈاکٹر شہاب المہاجر ہی داعش خراسان کے نئے سربراہ ہیں مگر اہم سوال یہ ہے کہ ڈاکٹر شہاب المہاجر کی آواز کے بجائے ان کے پیغام کو کیوں انجینیئر عزام کی آواز میں جاری کیا گیا ہے۔

اس کے دو مقاصد ہو سکتے ہیں، اول سکیورٹی وجوہات اور دوسرا ڈاکٹر المہاجر کی پشتو زبان سے ناآشنائی۔

اگر شدت پسندوں کے تناظر سے دیکھا جائے تو صوتی پیغام جاری کرنا ان کی اعلی ترین مطلوب قیادت کے لیے کبھی فکرمندی کی بات نہیں رہی ہے۔

مشاہدے میں آیا ہے کہ اسامہ بن لادن، ملا عمر، ابو مصعب الزرقاوی، ابوبکر البغدادی اور اس طرح ماضی کی دیگر اعلی ترین مطلوب قیادت نے انتہائی سخت حالات میں بھی اپنے صوتی پیغامات جاری کیے۔

دوسرے نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ اس بات کو تقویت پہنچاتا ہے کہ شاید داعش خراسان کے نیا امیر پشو زبان سے نابلد ہیں یا اس زبان میں روانی سے اپنے ساتھی جنگجوؤں کو پیغام نہیں دے سکتے۔

یہ بات دراصل اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل کی رپورٹ یا بلال سروری کے اس دعویٰ کی حمایت کرتی ہے کہ داعش کے خراسان شاخ کی سربراہی کے لیے اس دفعہ شاید کسی پاکستانی یا افغان کی بجائے کسی شامی یا عراقی کا انتخاب کیا جائے گا۔

اس معاملہ میں اکثر ماہرین کی یہ رائے ہے کہ خطے میں داعش کے لیے ایک غیر مقامی فرد کا سربراہ ہونا تنظیم کے لیے فائدہ مند نہیں ہو سکتا۔ اس لیے ڈاکٹر المہاجر کا عربی ہونا ان کے لیے ایک سوالیہ نشان ہے۔

پروفیسر عامرہ جدون کا کہنا ہے کہ ایک غیر مقامی فرد کی داعش خراسان کے سربراہ کے طور پر تعیناتی ان کے لیے تعجب کی بات ہے۔

اسی طرح برہان عثمان کا کہنا ہے کہ ایک عرب شخص کے لیے یہ ممکن نہیں ہو گا کہ وہ ایسے خطے میں داعش کی قیادت کر سکے جہاں سے وہ واقفیت نہ رکھتا ہو اور نہ ہی وہاں کی زبان اور ثقافت کو سمجھتا ہو۔

یہی رائے پاکستانی محقق عبدالباسط کا بھی ہے جو کہ سنگاپور میں راجہ رتنام تحقیقی مرکز میں جنوبی ایشیا شعبہ کے سربراہ ہیں۔

ان تمام ماہرین کی رائے کے برعکس اگر ہم داعش خراسان کے اندر شروع سے قیادت کے معاملہ پر تنازعات اور افغانستان میں جنم لینے والی نئی سیاسی صورتحال کو دیکھیں تو داعش خراسان کے لیے شام یا عراق سے تعلق رکھنے والے عربی شخص کی تعیناتی، جس کی خطے میں القاعدہ سے بھی وابستگی رہ چکی ہو، ایک انتہائی اہم اقدام سمجھا جا سکتا ہے۔

اگرچہ داعش خراسان کی بنیاد رکھنے والی قیادت کی اکثریت کا تعلق پاکستان سے تھا مگر جلد ہی اس کے اندر افغانستان کے لوگوں کی تعداد کئی گنا زیادہ ہو گئی۔

اس کے ساتھ ہی داعش خراسان نے بہت جلد ہی افغانستان کے صوبے کںڑ اور ننگرہار کے نواحی علاقوں کو اپنے مراکز میں تبدیل کیا۔

خراسان کے لے داعش کے پہلے والی حافظ سعید خان اورکزئی کا تعلق پاکستان سے تھا مگر شروع میں ان کی سربراہی کے لیے پسندیدہ نام افغانستان کے صوبہ ننگرہار سے تعلق رکھنے والے شیخ عبدالرحیم مسلم دوست کا ابھرنے لگا تھا۔

قیادت اور پالیسیوں کے معاملہ پر اختلافات کی بنا پر جلد ہی ‘مسلم دوست’ داعش خراسان سے الگ ہو گئے اور جلد ہی انھوں نے حافظ سعید خان اور خطے میں داعش کے دیگر رہنماؤں پر الزامات عائد کیے جن میں افغان اور پاکستانی قوم پرستی کا رنگ واضح طور پر نمایاں تھا۔

اسی طرح بعد میں حافظ سعید خان اورکزئی کے قریبی ساتھی اور رشتہ دار، مولوی اسلم فاروقی المعروف عبداللہ اورکزئی اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے شیخ مطیع اللہ کامہ وال کے درمیان قیادت کے معاملہ پر اختلاف پیدا ہوئے جس کا ذکر مئی 2020 کی اقوام متحدہ کی رپورٹ برائے افغانستان میں بھی کیا گیا ہے۔

اس لیے بعض ذرائع کا یہ کہنا ہے کہ داعش خراسان میں سربراہی کے معاملہ پر تنازعات کو ختم کرنے کے لیے اس دفعہ اس کی سربراہی کے لیے ایک غیر مقامی عرب شخص کا انتخاب کیا گیا ہے جو کہ علمی اور عسکری لحاط سے خطے میں داعش قیادت کے اندر ایک اہم نام سمجھا جاتا ہے۔

مشرقی وسطی کے عرب ہونے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر شہاب المہاجر کے متعلق یہ دعویٰ بھی کوئی اچھنبے کی بات نہیں کہ وہ ماضی میں القاعدہ کے عسکری کمانڈر رہ چکے ہیں۔

القاعدہ کی پاکستانی قیادت کی تحریروں اور بیانات سے اس بات کا پتا چلتا ہے کہ داعش خراسان کے قیام کے ساتھ ہی خطے میں القاعدہ کے اکثر ارکان نے داعش میں شمولیت اختیار کی تھی۔

کچھ عرصہ قبل داعش نے افغانستان کے صوبہ کنڑ میں مارے جانے والے اپنے ایک لیڈر کی تعزیت نما مختصر سوانح شائع کی تھی جس میں ان کا تعلق اردن سے بتایا گیا تھا اور یہ بھی کہا گیا تھا کہ وہ ماضی میں پاکستان اور افغانستان میں القاعدہ کے ایک کمانڈر رہ چکے تھے۔

پاک افغان خطے میں القاعدہ پر نظر رکھنے والے محققین کے مطابق اس خطے میں القاعدہ کے قیادت یا ارکان میں ڈاکٹر شہاب المہاجر نامی کسی شخص کا نام نہیں ملتا۔

مگر امریکہ کی سٹینفورڈ یونیورسٹی میں علوم سیاسیات کے معلم اور پاکستان، افغانستان میں القاعدہ پر تحقیق کرنے والے سکالر ڈاکٹر اسفند یار علی میر کے مطابق شدت پسند اپنے ماضی کو چھپانے کے لیے ہمیشہ نت نئے نام استعمال کرتے ہیں، لہذا اس بات کا قوی امکان ہو سکتا ہے کہ ڈاکٹر شہاب المہاجر القاعدہ میں کسی اور نام سے مشہور رہے ہوں اور اب داعش خراسان میں انھوں نے اپنے لیے اس نئے نام کا انتخاب کیا ہو۔

ڈاکٹر شہاب المہاجر کا القاعدہ کے ساتھ وابستگی کا دعویٰ اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس کی قیادت شاید افغانستان میں القاعدہ اور اس کے اتحادی تنظیموں کے افراد کو داعش خراسان میں شامل ہونے میں اہم کردار ادا کرے۔

پہلے ہی سے افغان طالبان اور امریکی حکومت کے امن معاہدہ کے تناظر میں یہ بازگشت اکثر سنائی دیتی ہے کہ شاید طالبان کے اندر سے سخت سوچ رکھنے والے جنگجو مستقبل میں بغاوت کر کے الگ ہو جائیں۔

داعش کی طرف سے ڈاکٹر شہاب المہاجر کی شناخت کو پراسرار رکھنے کی ایک اہم وجہ ان کی سلامتی کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا بھی ہو سکتا ہے۔

داعش خراسان کے ماضی کے تمام سربراہ بہت ہی کم عرصہ میں یکے بعد دیگرے امریکی اور افغان سکیورٹی اداروں کے ہاتھوں مارے گئے یا گرفتار ہوئے کیونکہ وہ سب مقامی طور پر جانے پہچانے نام رہے تھے۔

اس سلسلہ میں داعش کے نئے سربراہ کی پراسرار شناخت شاید ان کی گرفتاری یا مارے جانے میں رکاوٹ ثابت ہو سکے۔

Originally published at https://www.bbc.com on August 21, 2020.

--

--

Abdul Sayed

I am a research analyst focusing on jihadism, Afghanistan, and Pakistan.