افغان طالبان کو ممکنہ مشکلات سے بچانے کے لیے مذاکرات پر آمادہ ہوئے: عمر خالد خراسانی — BBC News اردو

Abdul Sayed
8 min readNov 17, 2021
  • محقق و تجزیہ کار
  • عبدالسید

،تصویر کا ذریعہ EPA

ریاست پاکستان سے گذشتہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک جنگ لڑنے والے سب سے بڑے شدت پسند گروہ، تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، نے حکومت پاکستان کے ساتھ حال ہی میں ایک ماہ کی جنگ بندی اور مذاکرات کا اعلان کیا ہے۔

اس سے قبل سنہ 2013 میں حکومت پاکستان کے اس تنظیم کے ساتھ مذاکرات میں کافی پیش رفت ہوئی تھی تاہم ان مذاکرات کے دوران امریکی ڈرون حملے میں تنظیم کے سربراہ حکیم اللہ محسود کا مارا جانا اور اس کے علاوہ بعض دیگر وجوہات کی وجہ سے وہ مذاکرات بغیر کسی نتیجہ کے اختتام پذیر ہو گئے تھے۔

سنہ 2013 میں مذاکرات کی ناکامی میں ایک اہم وجہ پاکستانی طالبان کے اندرونی اور اہم حلقوں کا ان مذاکرات پر عدم اعتماد بھی تھا۔ عدم اعتمار کا اظہار کرنے والوں میں ایک اہم نام اس تنظیم کے طاقتور کمانڈر عبدالولی مہمند عرف عمر خالد خراسانی کا تھا جو تحریک طالبان کے بانی کمانڈروں میں سے ہیں اور تنظیم کے حلقہ مہمند کے بانی سربراہ بھی۔

عمر خالد خراسانی کے اُس وقت کے دستیاب بیانات کے مطابق انھیں سنہ 2013 کے مذاکرات میں حکومت پاکستان کی سنجیدگی پر اس وجہ سے عدم اطمینان تھا کہ بقول ان کے اگر حکومت واقعی نتیجہ خیز مذاکرات چاہتی ہے تو اسے سب سے پہلے پاکستان میں قید طالبان قیدیوں کو رہا کرنا چاہیے۔

اگر موجودہ صورتحال کو بھی دیکھا جائے تو اِس وقت ہونے والے مذاکرات میں بھی قیدیوں کی رہائی طالبان کی طرف سے اولین شرط ہے۔

ماضی میں ہونے والے امن مذاکرات کے دوران ‘احرار الہند’ نامی ایک گمنام تنظیم نے پاکستان میں کئی بڑے خونریز حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی جن کا اصل منصوبہ ساز عمر خالد خراسانی کو ہی گردانا جاتا تھا اور پاکستانی حکام کا دعویٰ تھا کہ خراسانی اس نوعیت کی کارروائیاں کر کے پاکستان کے ساتھ ٹی ٹی پی کے امن مذاکرات کو آگے بڑھنے نہیں دینا چاہتے۔

بعد میں عمر خالد خراسانی نے تحریک طالبان سے الگ ہو کر ‘جماعت الاحرار’ نامی اپنی الگ تنظیم کا بھی اعلان کیا مگر گذشتہ برس یہ تنظیم دوبارہ تحریک طالبان پاکستان میں ضم ہو گئی تھی۔

،تصویر کا ذریعہ Reuters

،تصویر کا کیپشن

عمر خالد خراسانی

جب حالیہ مذاکرات پر عمر خالد خراسانی کا مؤقف جاننے کی کوشش کی گئی تو انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ تحریک طالبان پاکستان کی شوریٰ اور دیگر تمام قیادت کی طرح جاری مذاکرات کی مشروط حمایت کرتے ہیں۔

تاہم ساتھ ساتھ انھوں نے واضح کیا کہ حکومتِ پاکستان کی جانب سے تحریک طالبان پاکستان کے مطالبات ماننے کی صورت ہی میں ان مذاکرات میں پیش رفت ہو سکتی ہے، جس میں اب بھی سرفہرست مطالبہ تحریک طالبان پاکستان کے قید ساتھیوں کی رہائی ہے۔

مصدقہ ذرائع کے مطابق تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے حکومتِ پاکستان کو پہلے مرحلے میں رہائی کے لیے 102 افراد کی فہرست بھی دی گئی تھی۔

عمر خالد خراسانی نے دعویٰ کیا کہ حکومت نے اب تک اُن کے قیدیوں کو رہا نہیں کیا اور اس سلسلے میں لیت و لعل سے کام لیا جا رہا ہے۔

بظاہر یہی وہ وجہ ہے کہ عمر خالد خراسانی سنہ 2013 کی طرح اب بھی حکومتِ پاکستان کے ساتھ مذاکرات سے مطمئن نظر نہیں آ رہے ہیں۔

خالد خراسانی نے بتایا کہ اُن کی سمجھ کے مطابق حکومت پاکستان ماضی کی طرح امن کے قیام کے بجائے اس بار بھی مذاکرات کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہے۔

اُن کے خیال میں شاید تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے ان مذاکرات میں عدم شمولیت کو جواز بنا کر حکومت پاکستان عالمی برادری کے ساتھ مل کر افغان طالبان کے لیے مشکلات میں اضافہ کر سکتی تھی، اس لیے شاید یہی وجہ تھی کہ وہ اِن مذاکرات پر تیار ہو گئے۔

،تصویر کا ذریعہ Getty Images

بظاہر خراسانی افغان طالبان کے عالمی برادری کے ساتھ اس وعدے کی طرف اشارہ کر رہے تھے کہ جس میں طالبان نے اپنی سرزمین کو کسی بیرونی ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے کی یقین دہانی کروائی تھی۔

اب جب وہاں پاکستان مخالف اس سب سے بڑے شدت پسند گروہ کی موجودگی کے ناقابل تردید شواہد ہیں، جو طالبان کے زیر اقتدار آنے کے بعد بھی پاکستان میں حملوں میں ملوث ہیں تو یقیناً یہ افغان طالبان کے پچھلے سال دوحا امن معاہدہ پر عملدرآمد میں ناکامی تصور کی جا سکتی ہے۔

یہ بات امریکہ اور دیگر ممالک کے لیے بھی اندیشے کا سبب بن سکتی ہے کہ طالبان کی ایسی کوئی دوسری ناکامی یا نرمی شاید ان کی اندرونی سکیورٹی کے لیے مستقبل میں خطرہ نہ بن جائے۔

افغان طالبان کے سیاسی اور جہادی مخالفین طالبان حکومت پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ شاید ان کے دباؤ نے تحریک طالبان پاکستان کو حکومت کے ساتھ ان مذاکرات پر مجبور کیا ہے۔ طالبان حکومت پر اس الزام کی عمر خالد خراسانی نے تردید کی اور ان مذاکرات میں افغان طالبان کے کردار پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ان سمیت تحریک طالبان پاکستان افغان طالبان کی قیادت کو اپنا پیشوا سمجھتے ہیں اور ان سے ہرگز یہ توقع نہیں رکھتے کہ وہ ان کے لیے کسی ایسے دباؤ کا مؤجب بنیں جو تحریک طالبان پاکستان کے لیے نقصان کا سبب بن سکے۔ خراسانی نے امید ظاہر کی کہ افغان طالبان ان مذاکرات میں ان کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچائیں گے۔

عمر خالد خراسانی نے بتایا کہ مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں تحریک طالبان پاکستان کی شوریٰ اپنے کمانڈروں کی مشاورت سے آئندہ کا لائحہ عمل طے کرے گی۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ جاری مذاکرات میں ناکامی کی صورت میں تنظیم کا فیصلہ دوبارہ حملوں کے آغاز کی صورت میں ہو گا۔

کابل پر طالبان قبضہ کے بعد پاکستانی طالبان کی صورتحال

،تصویر کا ذریعہ Getty Images

افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد عام خیال یہ تھا کہ وہاں پر موجود ریاست مخالف پاکستانی شدت پسند گروه تحریک طالبان پاکستان کے لیے پاکستان مخالف سرگرمیاں جاری رکھنا مشکل ہو جائے گا۔

اس تصور کی دو وجوہات تھیں:

اول یہ کہ ماضی میں پاکستانی حکومت نے بارہا سابق افغان حکومت کو افغانستان میں موجود ریاستِ پاکستان مخالف گروہوں کی حمایت و پناہ کے لیے مورد الزام ٹھہرایا تھا۔ اس لیے افغان طالبان کے ساتھ پاکستان کے دیرینہ قریبی مراسم کی وجہ سے وہاں ان گروہوں کے لیے اپنی سرگرمیاں جاری رکھنا محال خیال کیا جاتا تھا۔

اس کے ساتھ سب سے بڑی اہم وجہ شاید یہ تھی کہ افغان طالبان کا گذشتہ برس فروری میں قطر کے دارالحکومت دوحا میں امریکہ کے ساتھ امن معاہدے کے بعد سے یہ دو ٹوک مؤقف رہا ہے کہ دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کے بعد وہ افغان سرزمین کو ہمسائے سمیت کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔

مگر اس کے برعکس رواں برس اگست کے وسط میں افغان طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد سے افغانستان میں تحریک طالبان پاکستان کی آزادانہ سرگرمیوں میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔

سابقہ افغان حکومت کی قید میں رہنے والے تحریک طالبان پاکستان کے سینکڑوں قیدیوں کو رہائی ملی جس میں کابل کے پل چرخی جیل میں آٹھ سال سے قید تحریک طالبان پاکستان کے بانی نائب امیر مولوی فقیر محمد بھی شامل ہیں۔

پاکستانی طالبان نے ایک رسمی ویڈیو کے ذریعے اپنے قیدیوں کی رہائی کی نہ صرف تصدیق کی بلکہ یہ بھی دنیا کو دکھایا کہ اب طالبان کے زیر اقتدار وہ افغانستان میں پہلے کی نسبت زیادہ آزاد ہیں۔

اس ویڈیو میں تحریک طالبان پاکستان کے موجودہ نائب سربراہ مفتی ابو ہشام نے سابق افغان فورسز سے قبضے میں لی گئیں درجنوں گاڑیوں کے کاروان میں فقیر محمد سمیت اپنے رہا شدہ قیدیوں کا استقبال کیا اور ان کے لیے بڑے اجتماعات کا انعقاد کیا۔

فقیر محمد اور مفتی ابو ہشام نے اپنے ویڈیو پیغامات میں افغان طالبان کی فتح کو تحریک طالبان پاکستان سمیت تمام دنیا کے جہادیوں کی سب سے بڑی فتح قرار دی اور اپنے جنگجوؤں پر زور دیا کہ اگر وہ بھی افغان طالبان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پاکستانی ریاست کے خلاف جنگ میں ثابت قدم رہیں تو ایک دن انھیں بھی افغان طالبان کی طرح ریاست پاکستان کے خلاف جنگ میں کامیابی ملے گی۔

اس کے ساتھ افغان طالبان کے برسراقتدار آنے کے فقط دو روز بعد 17 اگست کو تحریک طالبان پاکستان نے ایک رسمی پیغام کے ذریعے ان کو افغانستان میں کامیابی پر مبارکباد دی اور ساتھ ان کے ساتھ اپنی بیعت کی از سرنو تجدید کی اور اپنی تنظیم کو افغان طالبان کی برملا ایک ذیلی شاخ قرار دیا جو کہ ان کے بقول فقط پاکستان میں ‘مصروف جنگ’ ہے۔

مذاکرات کی پیشکش

،تصویر کا ذریعہ Reuters

تحریک طالبان پاکستان کے اس بڑھتے جارحانہ مؤقف کے جواب میں حکومت پاکستان کی جانب سے پاکستان کے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی، وزیر اعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے الگ الگ ٹی وی انٹرویوز کے ذریعے تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات اور ان کے ارکان کو عام معافی دینے کا اعلان کیا مگر اس شرط پر کہ تحریک طالبان پاکستان ملک کے آئین کو تسلیم کر کے ہتھیار پھینک دیں گے۔

اس کے جواب میں محمد خراسانی نے ایسی کسی بھی شرط پر مذاکرات کے امکان کو یہ کہہ کر مسترد کیا کہ ان کی تنظیم پاکستانی آئین کو تسلیم نہیں کرتی اور ساتھ میں یہ بھی واضح کیا کہ وہ ریاست پاکستان کے خلاف اپنی مسلح جنگ اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک ان کی مرضی کا اسلامی نظام پاکستان میں قائم نہیں کیا جاتا۔

ان تمام پیچیدگیوں کے باوجود حیرت انگیز طور پر پاکستان کے وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان نے یکے بعد دیگرے نو نومبر کو ایک مہینے کے لیے جنگ بندی اور مذاکرات کا اعلان کیا۔

ان کے بقول ان دونوں فریقین کے مذاکرات میں افغان طالبان ثالثی کا کردار ادا کر رہے ہیں جس کی تصدیق طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے اپنے حالیہ دورہ اسلام آباد میں بھی کی۔

مذاکرات سے باخبر ذرائع نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ تحریک طالبان کی جانب سے مذاکراتی کمیٹی میں اس کے باجوڑ، مہمند، سوات اور جنوبی وزیرستان شاخوں کے نمائندے شامل ہیں۔ تحریک طالبان کے قریبی ذرائع نے بھی اس کی تصدیق کی ہے۔ ان شاخوں کو تنظیم کی بنیادی اکائیاں سمجھا جاتا ہے جن کا تحریک طالبان کے قیام اور پاکستان میں اس تنظیم کی جنگ میں اہم کردار رہا ہے۔

تحریک طالبان کے باجوڑ اور جنوبی وزیرستان کی شاخوں کا ماضی میں بھی حکومت پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے لیے جھکاؤ رہا ہے مگر اس سلسلے میں مہمند اور سوات شاخوں کا ہمیشہ سخت مؤقف رہا ہے۔

خصوصاً تحریک طالبان پاکستان کے بانی رکن اور اس کے مہمند شاخ کے بانی سربراہ کمانڈر عبدالولی مہمند عرف عمر خالد خراسانی نے ہمیشہ پاکستانی ریاست کے ساتھ مذاکرات کی دعوت پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔

Originally published at https://www.bbc.com on November 17, 2021.

--

--

Abdul Sayed

I am a research analyst focusing on jihadism, Afghanistan, and Pakistan.