امریکہ کے خلاف اسلامی شدت پسندوں کے حملوں کا منصوبہ ساز پاکستانی نژاد رمزی یوسف کون تھا؟ — BBC News اردو

Abdul Sayed
13 min readFeb 7, 2022

،تصویر کا ذریعہ Getty Images

‘کیا یہی وہ شخص ہے جو آپ کو مطلوب ہے؟’ پاکستانی فوجی کمانڈو نے ایک نوجوان کو اپنے شکنجے میں کس کر اُس کا چہرہ امریکی ایف بی آئی ایجنٹ کی جانب موڑتے ہوئے پوچھا۔

امریکی ایجنٹ نے فوراً جیب سے ایک تصویر نکالی اور اسے اس شخص کے قریب لایا جسے پاکستانی کمانڈو نے دیوار سے لگا رکھا تھا۔

امریکی ایجنٹ نے اُس نوجوان کی تیکھی آنکھوں، کان اور ناک کا بغور جائزہ لیا، اُس کی انگلیوں پر زخموں کے نشان چیک کیے اور آنکھوں کے گرد جلنے کے نشان بغور دیکھے۔

اب کوئی شک نہیں رہ گیا تھا، حکام بالآخر امریکہ کو مطلوب ترین شخص کو گرفتار کر چکے تھے۔

سات فروری 1995 کی صبح لگ بھگ دس بجے امریکی سی آئی اے اور ایف بی آئی کے انٹیلیجنس اہلکاروں نے پاکستانی ایس ایس جی کمانڈوز کی مدد سے پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون ٹو میں واقع ‘سوکاسا گیسٹ ہاؤس’ کا گھیراؤ کر لیا تھا۔

اُن کا ہدف گیسٹ ہاؤس کی دوسری منزل کے کمرہ نمبر 16 میں مقیم 27 سالہ پاکستانی نژاد کویتی نوجوان رمزی یوسف تھا، جو امریکی حکومت کو دو سال قبل 26 فروری 1993 کو امریکہ کے شہر نیویارک میں واقع ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر کار بم حملے سمیت دیگر جرائم میں مطلوب تھا۔

برطانوی صحافی و مصنف سیمن رئیو کی رمزی یوسف پر لکھی گئی کتاب کے مطابق پانچ امریکی انٹیلیجنس اہلکاروں نے سات پاکستانی کمانڈوز کے ہمراہ گیسٹ ہاؤس کے کمرے میں گھس کر رمزی یوسف کو قابو کر کے ہتھکڑیوں میں جکڑ لیا تھا۔

‘کیا یہی وہ شخص ہے جو آپ کو مطلوب ہے؟’ پاکستانی فوجی کمانڈو کے اس سوال پر امریکہ سے خصوصی طور پر آئے ایف بی آئی ٹیم کے اہلکار جیف رینئر نے جیب سے ایک تصویر نکال کر اس سے رمزی یوسف کے چہرے کا بغور موازنہ کر کے جلد ہی تصدیق کی کہ گرفتار ہونے والا شخص ہی امریکہ کو انتہائی مطلوب اسلامی شدت پسند رمزی یوسف ہے۔

درحقیقت رمزی یوسف گیارہ ستمبر 2001 کو اسلامی شدت پسند تنظیم القاعدہ کے ‘عالمی تاریخ کے سب سے بڑے دہشت گرد حملوں’ کے اصل منصوبہ ساز تھے جس میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کو مکمل طور پر زمین بوس کر دیا گیا تھا۔

رمزی یوسف نے 26 فروری 1993 کو ٹرک بم حملے کے ذریعے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کو گرانے میں ناکامی پر اس عمارت کو طیاروں کے ذریعے تباہ کرنے کا منصوبہ بنایا تھا جسے 2001 میں القاعدہ کی مدد سے رمزی یوسف کے ماموں خالد شیخ محمد نے تکمیل تک پہنچایا۔

اسلام آباد سے رمزی یوسف کی گرفتاری کیسے ممکن ہوئی؟

امریکہ میں 26 فروری 1993 کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر بم حملے کے بعد رمزی یوسف اپنے اصل نام عبدالباسط کریم پر بنے پاسپورٹ کے ذریعے امریکہ سے کراچی فرار ہوئے تھے، اور اس طرح امریکی انٹیلیجنس اداروں کو اُن کی اصل شناخت کا پتہ لگ گیا تھا۔

شناخت پتہ چلنے کے بعد امریکہ نے پاکستانی حکومت سے رمزی یوسف کی گرفتاری میں مدد کے لیے رابطہ کیا اور اس وقت پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے، ایف آئی اے، کے ایک ڈائریکٹر رحمان ملک کو رمزی یوسف کی گرفتاری کا مشن سونپا کیا گیا تھا۔ (رحمان ملک پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں وفاقی وزیر داخلہ رہ چکے ہیں۔)

بعدازاں ہونے والے تحقیقات کے دوران ایف آئی اے نے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں رمزی یوسف کے ایک ٹھکانے کا پتہ لگایا تھا، مگر امریکی اور پاکستانی سکیورٹی اداروں کی مشترکہ کارروائی سے محض چند گھنٹے قبل رمزی یوسف وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے اور ان کی گرفتاری کا آپریشن ناکام ہوا۔

رمزی یوسف کی گرفتاری کے متعلق معلومات اُن کی گرفتاری سے محض چار روز قبل اُن کے قریبی ساتھی اشتیاق پارکر نے اسلام آباد میں امریکی سفارتخانہ کو فراہم کی تھیں، اور انتہائی مطلوب شدت پسند کی گرفتاری میں مدد دینے پر اشتیاق پارکر کو امریکی حکومت کی طرف سے رمزی یوسف کی گرفتاری پر رکھا گیا 20 لاکھ امریکی ڈالرز کے انعام سے نوازا گیا۔

بعدازاں سکیورٹی کے پیش نظر اشتیاق پارکر، ان کی اہلیہ اور بچے کو امریکہ منتقل کر دیا گیا تھا۔

،تصویر کا ذریعہ Getty Images

،تصویر کا کیپشن

رمزی یوسف کی گرفتاری میں مدد دینے پر ان کے قریبی ساتھی اشتیاق پارکر کو 20 لاکھ امریکی ڈالرز کی انعامی رقم دی گئی تھی

اُس وقت کی پاکستان کے وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی بعد میں شائع ہونے والی تحاریر کے مطابق رمزی یوسف نے 1993 کے الیکشن سے قبل اور اس کے دوران دو مرتبہ انھیں (بےنظیر کو) بم دھماکہ میں ہلاک کرنے کا منصوبہ بنایا تھا جس میں وہ ناکام رہا تھا۔

اسی لیے رمزی یوسف نے گرفتاری کے بعد تفتیش کاروں کو بتایا تھا کہ اُن کا خیال تھا کہ شاید پاکستانی اداروں نے انھیں بے نظیر بھٹو پر ہونے والی حملوں کے سلسلے میں گرفتار کیا تھا۔

اپنی گرفتاری کے وقت رمزی یوسف اس بات سے بے خبر تھے کہ انھیں دراصل امریکی انٹیلیجنس کے اداروں کی خفیہ معلومات پر پاکستانی سکیورٹی فورسز گرفتار کر کے امریکہ کے حوالے کر رہی ہیں۔

گرفتاری کے بعد رمزی یوسف کی امریکہ منتقلی پاکستان کی تاریخ کا اپنی نوعیت کا پہلا آپریشن تھا کہ جس میں امریکی انٹیلیجنس اداروں نے اپنے ایک ایسے مجرم کو پاکستانی سرزمین سے گرفتار کر کے بغیر عدالتی کارروائی امریکہ منتقل کیا تھا جو کہ ایک لحاظ سے پاکستانی شہری بھی تھا اور جن کا پاکستان کے بااثر سیاسی مذہبی حلقوں کے ساتھ گہرا تعلق بھی تھا۔

اسلامی شدت پسندی پر تحقیق کرنے والے مشہور فرانسیسی پروفیسر ولیور رائے کے مطابق رمزی یوسف کو پاکستان میں دیوبندی مسلک سے تعلق رکھنے والے ایک سنی فرقہ پرست تنظیم کے ارکان کی میزبانی حاصل تھی جو اُن کے ساتھ افغانستان میں ایک عسکری مرکز سے وابستہ رہے تھے۔

اس کے علاوہ رمزی یوسف کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کو زمیں بوس کرنے کے ابتدائی منصوبے کو سنہ 2001 میں کامیابی سے مکمل کرنے والے خالد شیخ محمد کو بھی سنہ 2003 میں پاکستان کی بااثر مذہبی سیاسی تنظیم کے ایک سرکردہ رہنما کے راولپنڈی میں واقع گھر سے پاکستانی سکیورٹی اداروں کی توسط سے امریکی انٹیلیجنس اداروں نے گرفتار کیا تھا۔

اس سے رمزی یوسف اور اُن کے خاندان کا پاکستان کے موثر مذہبی سیاسی جماعتوں سے قربت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

اسی لیے امریکی اہکاروں کے پاکستانی دارالحکومت سے رمزی یوسف کو گرفتار کر کے امریکہ لے جانے پر حکومت مخالف سیاسی اور خصوصاً مذہبی طبقہ سے وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے متعلق شدید ردعمل آیا۔

بے نظیر بھٹو کی تحاریر کے مطابق رمزی یوسف کی گرفتاری کے ردعمل میں اُسی سال نومبر کے مہینے میں القاعدہ نے اسلام اباد میں واقع مصری سفارتخانے پر پاکستان کی تاریخ کا سب سے پہلا خودکش ٹرک بم حملہ کروایا تھا۔

محترمہ بے نظیر بھٹو نے سنہ 1999 میں اپنی ایک تقریر میں انکشاف کیا تھا کہ بعد میں اُن کے قریبی ساتھی رحمان ملک کو درحقیقت رمزی یوسف کی گرفتاری کی پاداش میں کار چوری کے ایک جھوٹے مقدمے میں گرفتار کیا گیا تھا، جو بینظیر کے بقول دراصل رمزی یوسف کے ملک میں ہم فکر حلقوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے تھا۔

1993 کا ورلڈ ٹریڈ سینٹر حملہ

ستمبر 1992 میں رمزی یوسف امریکہ منتقل ہوئے تھے جہاں انھوں نے سات فروری 1993 کو امریکہ میں مقیم اپنے عرب نژاد ساتھیوں کی مدد سے ورلڈ ٹرید سینٹر کو ایک ٹرک بم حملے کے ذریعے نشانہ بنایا۔

رمزی یوسف کے اُن ساتھیوں کا تعلق مصر اور فلسطین سے تھا جو برسوں سے امریکہ میں مقیم تھے۔ رمزی یوسف اور ان کے ساتھیوں نے دیگر ہزاروں غیر ملکی شدت پسندوں کی طرح افغانستان اور پاکستان میں واقع شدت پسندوں کے عسکری مراکز میں وقت گزارا تھا، جہاں یہ تمام افراد ‘افغان جہاد’ میں شمولیت کے لیے اکٹھے ہوئے تھے۔

سوویت افواج کے افغانستان سے انخلا کے بعد اسلامی شدت پسندوں کو یہ باور کروایا گیا تھا کہ اب ان کا اگلا ہدف امریکہ ہوگا جو کہ اُن کے بقول مسئلہ فلسطین سمیت اسلامی دنیا کے تمام مسائل کا اصل ذمہ دار ہے۔

اس کے ساتھ عراق کویت جنگ کے دوران سعودی حکومت کے درخواست پر امریکی فوج کے سعودی عرب میں فوجی مراکز میں قیام نے ان شدت پسندوں کے امریکہ مخالف نفرت میں شدید اضافہ کیا تھا۔

ان ہی امریکہ مخالف شدت پسندوں میں ایک رمزی یوسف بھی تھے۔

نائن الیون کمیشن رپورٹ کے مطابق رمزی یوسف نے امریکی تفتیش کاروں کو گرفتاری کے بعد بتایا تھا کہ اُن کا اندازہ تھا کہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کے نتیجے میں کم از کم ڈھائی لاکھ امریکی شہری مارے جا سکتے ہیں، مگر ایسا نہ ہونے پر انھیں افسوس ہوا تھا۔

رمزی یوسف کی توقعات کے برعکس اس حملہ میں فقط چھ افراد ہلاک اور ایک ہزار کے قریب زخمی ہوئے تھے اور ورلڈ ٹریڈ سینٹر مکمل زمین بوس نہیں ہو سکا تھا بلکہ اس عمارت کو جزوی نقصان پہنچا تھا۔

حملہ کے فوراً بعد رمزی یوسف امریکی سکیورٹی اداروں سے کامیابی سے بچ کر پاکستان بھاگ آئے تھے، مگر اُن کے امریکہ سے فرار کے چند روز بعد ہی اُن کے شریک جرم سہولت کار ساتھی پکڑے گئے تھے جنھوں نے یہ اطلاع دی کہ اس منصوبے کے ماسٹر مائنڈ رمزی یوسف تھے۔

اس کے بعد رمزی یوسف امریکی انٹیلیجنس اداروں کی انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں شامل ہوئے۔

نائن الیون کمیشن رپورٹ کے مطابق رمزی یوسف نے امریکہ سے نکلنے کے بعد اپنے ماموں خالد شیخ محمد کے ساتھ مل کر امریکی اقتصادی اہداف کو نشانہ بنانے کا منصوبہ بنایا کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ امریکہ میں موجود اقتصادی اہداف کو نشانہ بنا کر وہ امریکہ کی ‘مسلم مخالف خارجہ پالیسی’ میں تبدیلی لانے کے لیے دباؤ بڑھا سکیں گے۔

امریکہ کے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی کے سابق سینیئر اہلکار علی سوفان کی خودنوشت کے مطابق گرفتاری کے بعد ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے اوپر سے پرواز کے دوران رمزی یوسف نے اس عمارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امریکی اہلکاروں کو بتایا تھا کہ اگر اُن کے پاس فنڈز کی کمی نہ ہوتی تو آج یہ عمارت کھڑی نہیں رہتی۔

بعدازاں شاید انھیں فنڈز کی حصول کے لیے رمزی کے قریبی ساتھ خالد شیخ محمد نے مشن کی تکمیل کے لیے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن سے گٹھ جوڑ بنا لیا تھا۔

اوپلان بوجینکا منصوبہ

امریکی ادارے ‘انعامات برائے انصاف’ کے مطابق امریکہ میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے سے اپنے مطلوبہ اہداف میں ناکامی کے بعد 1994 کے موسم سرما کے اواخر میں رمزی یوسف نے خالد شیخ محمد اور دیگر تین ساتھیوں کے ساتھ مل کر فلپائن سے پرواز بھرنے والے ایک درجن امریکی مسافر طیاروں میں بم نصب کر کے انھیں دوران پرواز اڑانے کا منصوبہ بنایا تھا۔

اس منصوبے کو ‘منیلا ایئر’ یا ‘اوپلان بوجینکا’ منصوبہ بھی کہا جاتا ہے۔ اُسی سال 12 دسمبر کو اس منصوبے کو عملی جامہ پہناتے ہوئے جاپان کے شہر ٹوکیو جانے والے ایک فلپائن کے مسافر بردار طیارے میں کامیابی سے بم نصب کر کے دھماکہ بھی کیا گیا تھا۔

مگر چند روز بعد سات جنوری کو اس منصوبے کے آخری مراحل میں ایک تکنیکی غلطی کی وجہ سے اتفاقاً بم تیار کرنے کی لیبارٹری میں آگ لگ گئی۔ آگ لگنے کے اس واقعے کے بعد رمزی یوسف کا قریبی ساتھی عبدالحکیم مراد اپنے لیپ ٹاپ سمیت فلپائنی سکیورٹی اہلکاروں کے ہتھے چڑھ گیا جس کی وجہ سے یہ منصوبہ تکمیل تک پہنچنے سے قبل ہی ناکام بنا دیا گیا۔

امریکی حکام کے مطابق منیلا ایئر منصوبہ کے تحت ہی رمزی یوسف نے 1994 کے اواخر میں امریکی صدر کلنٹن اور اگلے سال فروری میں مسیحی مذہبی رہنما جان پاپ دوئم کو دورہ فلپائن کے دوران نشانہ بنانے کی منصوبہ بندیاں کی تھیں، مگر یہ منصوبے بھی ناکام رہے تھے۔

القاعدہ اور رمزی یوسف کا تعلق

رمزی یوسف اور عالمی شدت پسند تنظیم القاعدہ اور اس کے سربراہ اسامہ بن لادن کے نظریات اور ان کا پس منظر تقریباً ایک ہی تھا۔ دونوں نے ہی سوویت افواج کے افغانستان پر اسلامی شدت پسندوں کے گٹھ جوڑ سے جنم لیا تھا، جو کہ عبداللہ عزام کے قریبی حلقہ کے ساتھی تھے اور اس جنگ کے اختتام کے بعد انھوں نے بتدریج امریکہ کے خلاف جنگ کا آغاز کیا تھا۔ مگر اس مماثلتوں کے باوجود رمزی یوسف کا کبھی اسامہ بن لادن یا اُن کے تنظیم القاعدہ سے کوئی تعلق نہیں رہا تھا۔

نائن الیون کمیشن رپورٹ کے مطابق رمزی یوسف کے ماموں اور بعد میں بن لادن کے دست راست بننے والے خالد شیخ محمد نے نائن الیون حملوں کے بعد امریکی اہلکاروں کو دوران تفتیش بتایا تھا کہ رمزی یوسف کبھی القاعدہ کا رکن نہیں رہے تھے اور نہ ہی انھوں نے کبھی القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن سے ملاقات کی تھی۔

خالد شیخ محمد کے بقول اسامہ بن لادن رمزی یوسف کے امریکہ مخالف دہشت گردانہ منصوبوں سے کافی متاثر تھے جن کی وجہ سے ہی انھوں نے سال 1996 کے اواخر میں مشرقی افغانستان کے صوبہ ننگرہار کے مشہور پہاڑی سلسلہ تورہ بورہ میں بن لادن سے ملاقات کی اور انھیں رمزی یوسف کے امریکہ مخالف بنائے گئے منصوبوں کے متعلق آگاہ کیا تھا۔

درحقیقت یہی وہ نکتہ تھا جہاں سے ان دونوں کے درمیان رمزی یوسف کے ہوائی جہازوں کے ذریعے امریکہ کے خلاف حملوں کے منصوبوں پر پیش رفت کا آغاز ہوا جو کہ بالآخر سال 2001 میں ہونے والے گیارہ ستمبر کے عالمی تاریخ کے ہولناک دہشت گرد حملوں کا سبب بنا۔

اسامہ بن لادن نے اپنے بیانات میں ہمیشہ رمزی یوسف کو امریکہ کے خلاف دہشت گردانہ عزائم کی وجہ سے بطور ایک رول ماڈل پیش کر کے ہمیشہ اس عزم کا اظہار کیا کہ رمزی کے فکری ساتھی امریکہ کے خلاف شروع کی گئی اس کے جنگ کو آگے بڑھائیں گے۔

بن لادن نے ان عزائم کا اظہار خصوصاً امریکی صحافیوں کے ساتھ سال 1998 میں افغانستان میں کیے گئے اپنے ان انٹرویوز میں کیا جو بعد میں امریکی ٹی وی چینلوں پر نشر کیے گئے۔

ان انٹرویوز سے پتہ چلتا ہے کہ بن لادن کی سوچ پر رمزی یوسف کے منصوبوں کا اتنا اثر تھا کہ وہ اپنے بیانات میں رمزی کو امریکہ مخالف اسلامی شدت پسندوں کے لیے ایک ہیرو کی طرح بڑھا چڑھا کر پیش کرتے تھے۔

رمزی یوسف کون تھے؟

رمزی یوسف کا اصل نام عبدالباسط کریم تھا جو کہ مشرقی وسطیٰ کے ملک کویت میں ایک پاکستانی نژاد گھرانے میں اپریل 1968 میں پیدا ہوئے تھے۔

اُن کے خاندان کا تعلق صوبہ بلوچستان کے ایران سے متصل دور دراز سرحدی علاقے کے بلوچ قبائل سے تھا جو کہ ساٹھ کی دہائی کے اوائل میں کویت منتقل ہو گئے تھے۔

رمزی یوسف کے نانا کویت کی ایک بڑی مسجد میں پیش امام و خطیب تھے اور یہ گھرانے سخت مذہبی سوچ کا حامل تھا۔ بعد میں رمزی یوسف کے ماموں کویت میں اخوان المسلمین تنظیم کے شاخ سے وابستہ ہوگئے تھے جہاں اُن کے بڑے ماموں شیخ عابد اس تنظیم کی نوجوانوں کی شاخ کے سرکردہ رہنما بنے۔

عابد شیخ اُردن کی ایک یونیورسٹی میں اخوان المسلمین کے اہم رہنما اور مشہور فلسطینی جہادی مفکر ڈاکٹر عبداللہ عزام کے قریبی ساتھی بن گئے تھے۔

ڈاکٹر عزام اسی کی دہائی میں سوویت افواج کے خلاف افغان جنگجوؤں کی حمایت کے لیے عالمی سطح پر ایک مشہور کردار بن کر ابھرے تھے جس کی وجہ سے عالمی دنیا اور خصوصاً عرب ممالک سے ہزاروں نوجوان افغانستان میں سویت افواج کے خلاف لڑنے کے لیے پاکستان منتقل ہوئے تھے۔

ڈاکٹر عزام کی ایک کتاب کے مطابق شیخ عابد بھی اپنے بھائیوں اور بھانجوں سمیت عبداللہ عزام کی پیروی کرتے ہوئے افغانستان سے متصل پاکستان کے شمال مشرقی شہر پشاور منتقل ہوئے تھے۔

شیخ عابد کے گھرانے کے شدت پسند افراد میں اُن کا بھائی خالد شیخ محمد اور رمزی یوسف بعد میں امریکہ کے خلاف دہشت گردانہ حملوں کی وجہ سے عالمی سطح پر شدت پسندی کی دنیا کے خطرناک نام بن گئے۔

مشہور مصری محقق و صحافی یوسری فودہ کی کتاب کے مطابق سال 1986 کےاواخر میں رمزی یوسف کویت سے پاکستان اور یہاں سے برطانیہ منتقل ہوئے جہاں انھوں نے آکسفورڈ اور جنوبی ویلز کے کے تعلیمی اداروں سے کمپیوٹر انجینیئرنگ کی تعلیم حاصل کی۔ دوران تعلیم رمزی یوسف اپنے سالانہ چھٹیاں پشاور اور افغانستان سے متصل پاکستان کے سرحدی علاقوں میں واقع عرب و افغان جنگجوؤں کے مراکز میں عسکری تربیت حاصل کرنے میں گزارتے۔ سنہ 1991 میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد رمزی یوسف مستقل پاکستان آئے اور اس دوران افغانستان میں واقع شدت پسند جنگجوؤں کے مراکز سے بم بنانے کی مہارت حاصل کی۔

خالد شیخ محمد کی تفتیشی رپورٹ کے مطابق رمزی یوسف نے افغانستان کے مشرقی صوبہ ننگرھار کے مرکزی شہر جلال آباد کے قریب عرب عسکریت پسندوں کے ایک ٹریننگ سنٹر سے عسکری تربیت حاصل کی تھی۔

یوسری فودہ کے مطابق اسی جنگ کے دوران رمزی یوسف اور اُن کے ماموں خالد شیخ محمد کے مشرقی ایشیا کے ملک فلپائن میں شدت پسند تنظیم ابوسیاف کی بنیاد رکھنے والے عسکریت پسندوں سے تعلقات بن گئے تھے جو اکٹھے افغان جہادی لیڈر عبدالرب رسول سیاف کے تنظیم سے وابستہ تھے۔

یوسری فودہ کے مطابق سال 1991 میں رمزی یوسف نے کئی دفعہ فلپائن کے چکر لگائے جہاں وہ ابوسیاف تنظیم کے اراکان کو دہشت گردانہ کارروائیوں کی تربیت دیتے رہے۔ شاید اسی تعلق و شناسائی کی بدولت رمزی یوسف نے فلپائن میں تین سال بعد کئی بڑے دہشت گردانہ حملوں کے منصوبے بھی بنائے جو کہ سب آخری مراحل میں ناکام ہوئے۔

رمزی یوسف کو سزا

گرفتاری کے تین سال بعد آٹھ جنوری 1998 کو امریکی ریاست نیویارک کی عدالت کے جج کیوئین تھوس ڈیفی نے رمزی یوسف کو امریکہ کے خلاف دو دہشت گردانہ کارروائیوں پر عمرقید تنہائی سمیت ساڑھے چار ملین امریکی ڈالر جرمانہ اور 280 ملین ان حملوں کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کے ازالہ کا معاوضہ دینے کی سزا سنائی۔

عدالتی فیصلہ کے مطابق رمزی یوسف کو یہ سزا ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر ٹرک بم حملہ کرنے، فلپائن میں ایک درجن امریکی مسافر بردار ہوائی جہازوں کو تباہ کرنے کے ناکام منصوبے کے کیس میں سنائی۔

امریکی میڈیا میں اگلے دن شائع ہونے والی اس عدالتی کارروائی کی رپورٹ کے مطابق اس فیصلہ کے بعد رمزی یوسف نے پہلی مرتبہ عدالتی کارروائی میں ان جرائم میں ملوث ہونے کا اقرار کرتے ہوئے امریکہ مخالف دہشت گرد ہونے پر فخر کا اظہار کیا تھا۔

امریکی میڈیا کے مطابق رمزی یوسف نے اپنے اس منصوبے کو امریکہ کی جانب سے اسرائیلی ریاست کی پشت پناہی اور اسلامی ممالک میں دخل اندازی کا ردعمل قرار دیا تھا۔

Originally published at https://www.bbc.com on February 7, 2022.

--

--

Abdul Sayed

I am a research analyst focusing on jihadism, Afghanistan, and Pakistan.